نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے پی ٹی آئی کے احتجاجی رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جماعت کے احتجاج یا ریلیاں کبھی پرامن نہیں رہیں اور قانون کے مطابق ریڈ زون میں مظاہرے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
اسلام آباد میں غیر ملکی سفیروں سے ملاقات کے دوران اسحٰق ڈار نے کہا کہ 24 نومبر کو جب پاکستان میں غیر ملکی وفد موجود تھا، ایک سیاسی جماعت نے غیر متوقع طور پر احتجاج کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں اسی جماعت نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر احتجاج کیا، جس کے تحت 35 پنکچروں کا بیانیہ تشکیل دیا گیا، لیکن کمیشن کی تحقیقات میں یہ الزامات جھوٹے ثابت ہوئے، تاہم پی ٹی آئی نے کبھی معافی نہیں مانگی۔
اسحٰق ڈار نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی کو ریڈ زون میں احتجاج سے باز رکھنے کے لیے مذاکرات کیے، لیکن احتجاج کے لیے صوبائی وسائل اور اسلحہ استعمال کیا گیا، جو غیر مناسب عمل تھا۔
انہوں نے کہا کہ ریڈ زون کی سیکیورٹی کے قوانین سخت ہیں کیونکہ سفیروں کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہے۔ قانون سازی کے ذریعے ریڈ زون میں احتجاج پر پابندی عائد ہے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچا جاسکے۔
واضح رہے کہ عمران خان کی جانب سے 24 نومبر کو احتجاج کی حتمی کال دی گئی تھی، جس کے بعد بشریٰ بی بی اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی قیادت میں مظاہرین نے اسلام آباد کی جانب مارچ کیا۔ تاہم 26 نومبر کو مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپ کے بعد پی ٹی آئی کارکن وفاقی دارالحکومت سے منتشر ہوگئے۔
بعد ازاں، پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے کارکنان کی ہلاکت کے مختلف دعوے کیے گئے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے سینکڑوں کارکنوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا، جب کہ لطیف کھوسہ نے 278، سلمان اکرم راجا نے 20، اور شعیب شاہین نے 8 کارکنان کی اموات کے مختلف اعداد و شمار پیش کیے۔
پولیس حکام کے مطابق مظاہرین نے سیکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ، لاٹھیوں اور برچھیوں سے حملے کیے، جس کے نتیجے میں 170 سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوئے، جو اب اسپتال میں زیر علاج ہیں۔