اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے 24 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے احتجاج کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ حکومت نے امن و امان بحال کرنے کے بجائے پورے اسلام آباد کو بند کر دیا اور یہ رویہ مناسب نہیں تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر پی ٹی آئی نے غلط کیا، تو حکومت کا رویہ بھی غلط تھا۔
یہ سماعت صدر جناح سپر مارکیٹ کی جانب سے دائر درخواست پر ہوئی، جس میں احتجاج کی وجہ سے تجارتی سرگرمیوں میں رکاوٹ پر شکایت کی گئی تھی۔ عدالت نے وزارت داخلہ کو آئندہ سماعت تک تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی۔
سماعت کے دوران ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ، اسٹیٹ کونسل ملک عبد الرحمن اور دیگر سرکاری افسران عدالت میں پیش ہوئے۔ اسٹیٹ کونسل نے بتایا کہ کچھ رپورٹس موصول ہو چکی ہیں اور باقی آنے والی ہیں۔
چیف جسٹس نے سرکاری وکیل سے سوال کیا کہ عدالت کے احکامات کو نظرانداز کیوں کیا گیا؟ انہوں نے کہا کہ شہریوں اور کاروباری طبقے کے حقوق کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے، لیکن پورے شہر کو بند کرنا مسئلے کا حل نہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے دفعہ 144 نافذ کرکے نہ صرف راستے بند کیے بلکہ اہم موٹرویز، اسکول، اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل کر دی، جس سے عام شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت اور پی ٹی آئی دونوں نے عدالتی احکامات کی پاسداری نہیں کی، اور پی ٹی آئی سے بھی وضاحت طلب کی جائے گی کہ احتجاج کے دوران عدالتی ہدایات کو کیوں نظرانداز کیا گیا۔
واضح رہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی اور دیگر مطالبات کے لیے پی ٹی آئی نے 24 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کیا تھا، جس کے جواب میں حکومت نے 18 نومبر سے ہی سخت اقدامات شروع کر دیے تھے۔
عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔