مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر 2 ججز کے اختلافی نوٹ سوالیہ نشان ہیں، عطاتارڑ
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر سوالات اٹھائے ہیں، جس میں پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں ملنے کا فیصلہ شامل ہے۔ تارڑ نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کے دو ججز، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان کے اختلافی نوٹ کا ذکر کیا، جنہوں نے اکثریت کے فیصلے پر بڑے سوالات اٹھائے ہیں۔
تارڑ نے کہا کہ ابھی تک بقیہ جج صاحبان کی جانب سے تحریری فیصلہ جاری نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے فیصلے کی قانونی حیثیت پر سوالات کھڑے ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اختلافی نوٹ میں یہ بات اٹھائی گئی ہے کہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں ملنے کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے آئین کے بعض آرٹیکلز کو معطل کرنا پڑے گا، جو کہ قانونی فریم ورک پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔
تارڑ نے مزید کہا کہ اگر مستقبل میں اس فیصلے کو جواز بنا کر فلور کراسنگ کی اجازت دی گئی تو کیا یہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی خلاف ورزی نہیں ہوگی؟ انہوں نے سوال کیا کہ کیا اس فیصلے کے ذریعے پارٹی تبدیل کرنا قانونی ہو جائے گا اور کیا آئین و قانون کی حکمرانی متاثر ہوگی؟
انہوں نے کہا کہ ججز کے اختلافی نوٹ میں اٹھائے گئے آئینی و قانونی نکات کا جواب دینا انتہائی ضروری ہے، ورنہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ایک طرفہ ریلیف کا تاثر ملے گا جس سے آئین و قانون کو دھچکا لگے گا اور فلور کراسنگ قانونی ہو جائے گی۔