اسرائیلی فوج نےاعلان کیا کہ وہ امداد کی ترسیل کو آسان بنانے کے لیے جنوبی غزہ کی پٹی کے چندحصوں میں روزانہ فوجی سرگرمیاں روکنے کا نفاذ کرے گی۔
فوج نے ایک بیان میں کہا کہ انسانی ہمدردی کے مقاصد کے لیے فوجی سرگرمیوں کا مقامی، حکمت عملی سے وقفہ ہر روز صبح 8:00 بجے سے لے کر شام 7بجے تک جاری رہے گا۔مزید کہا گیا کہ یہ فیصلہ اقوام متحدہ اور دیگر تنظیموں کے ساتھ بات چیت کے بعد غزہ کی پٹی میں داخل ہونے والی انسانی امداد کے حجم کو بڑھانےکی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر لیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ اقوام متحدہ اور دیگر تنظیموں کے ساتھ بات چیت کے بعد غزہ کی پٹی میں داخل ہونے والی انسانی امداد کے حجم کو بڑھانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
اسرائیل طویل عرصے سے امدادی سامان کی فراہمی میں سہولت فراہم کرنے کی اپنی کوششوں کا دفاع کرتا رہا ہے، جس میں کریم شالوم کراسنگ بھی شامل ہے، لیکن انسانی حقوق کے گروپ کئی ماہ سے محصور فلسطینی علاقے میں خوراک اور دیگر ضروری اشیا کی شدید قلت کے بارے میں خبردار کر رہے ہیں۔
ادھر عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ غزہ میں پانچ سال سے کم عمر کے آٹھ ہزار سے زائد بچوں کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے۔
بین الاقوامی ثالث اسرائیل اور حماس پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے طے پانے والے جنگ بندی معاہدے پر راضی ہو جائیں تاکہ قیدیوں کے تبادلے کی اجازت دی جا سکے اور امداد کی فراہمی میں اضافہ کیا جا سکے، لیکن حالیہ دنوں میں یہ پیش رفت رک گئی ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈپٹی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کارل اسکو نے حال ہی میں کہا تھا کہ ’پٹی کے اندر لاقانونیت کے ساتھ فعال تنازعے کی وجہ سے امداد کی مطلوبہ مقدار کی فراہمی تقریباً ناممکن ہو چکی ہے۔