بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر اور اس کے خطرناک نتائج

تحریر: میاں کامران

بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے، جہاں مختلف مذاہب، زبانیں اور ثقافتیں ہزاروں سالوں سے ایک ساتھ رہتی آئی ہیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں بھارت کا مذہبی تشخص ایک ایسی صورت اختیار کر چکا ہے جو ملک کے سیکولر اور کثیر الثقافتی تشخص کے لیے ایک سنگین خطرہ بن گیا ہے۔ مذہبی رواداری کی جگہ انتہا پسندی اور فرقہ واریت نے لے لی ہے اور یہ رحجان نہ صرف بھارت کے اندرونی حالات بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی تشویش کا باعث بن رہا ہے۔

مذہبی انتہا پسندی کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں، جن میں حکومتی پالیسیوں، سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی اور سماجی میڈیا کے غلط استعمال کا کلیدی کردار ہے۔ 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کے آنے کے بعد سے ہندوتوا نظریے کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ہندوتوا دراصل اس نظریے کا نام ہے جس کے مطابق بھارت کو ایک ہندو ریاست ہونا چاہیے، اور غیر ہندو اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ اس نظریے کے فروغ سے بھارت میں اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف تشدد میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔

اقلیتوں کی حالت زار

بھارت میں اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف تعصب اور امتیازی سلوک کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم رپورٹ کے مطابق، بھارت میں مذہبی اقلیتیں شدید دباؤ اور ظلم کا شکار ہیں۔ گاؤ رکشا کے نام پر مسلمانوں کو مارا پیٹا جاتا ہے، ان کے کاروبار اور املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے، اور یہاں تک کہ ان کے مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ 2019 میں منظور کیے گئے شہریت ترمیمی قانون (CAA) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (NRC) جیسے قوانین نے مسلمانوں کو مزید الگ تھلگ کر دیا ہے اور انہیں ایک غیر محفوظ اقلیت بنا دیا ہے۔

اسی طرح، عیسائی برادری بھی ہندوتوا تنظیموں کے نشانے پر ہے۔ کئی ریاستوں میں عیسائیوں کے خلاف تشدد کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں، چرچوں پر حملے کیے جا رہے ہیں، اور ان کی مذہبی رسومات میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔ مذہبی آزادی کے اس تشویشناک ماحول میں بھارت میں موجود مختلف اقلیتوں کے لیے روز مرہ زندگی ایک چیلنج بن چکی ہے۔

فرقہ وارانہ فسادات اور سیاسی فائدہ

بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کوئی نئی بات نہیں ہیں، مگر گزشتہ ایک دہائی میں ان میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ 2002 کے گجرات فسادات ہوں یا 2020 کے دہلی فسادات، ہر بار اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ان فسادات کے دوران حکومتی عملداری پر سنگین سوالات اٹھے ہیں۔ یہ فسادات نہ صرف اقلیتوں کی زندگیوں کو متاثر کرتے ہیں، بلکہ بھارت کی معیشت اور سماجی ہم آہنگی کو بھی تباہ کر دیتے ہیں۔

فرقہ وارانہ تشدد کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اسے اکثر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ انتخابات کے دوران مذہبی کارڈ کھیلنا، اقلیتوں کو بدنام کرنا، اور فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکانا عام سیاسی ہتھکنڈے بن چکے ہیں۔ بی جے پی اور دیگر ہندوتوا جماعتیں اس بات کو بخوبی جانتی ہیں کہ مذہبی بنیادوں پر ووٹ حاصل کرنا کس قدر آسان ہے، اور اسی وجہ سے وہ اپنے حامیوں میں نفرت اور تعصب کا بیج بوتی ہیں۔

میڈیا اور سوشل میڈیا کا کردار

بھارت میں میڈیا کا ایک بڑا حصہ بھی اس مذہبی تفریق کو ہوا دینے میں ملوث ہے۔ کئی ٹی وی چینلز اور اخبارات اقلیتوں کے خلاف متعصبانہ رپورٹنگ کرتے ہیں اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی نفرت انگیز مواد کی بھرمار ہے، جس میں اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کے خلاف تشدد پر اکسانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

فیس بک اور واٹس ایپ جیسے پلیٹ فارمز پر جھوٹے پروپیگنڈے اور جعلی خبروں کے ذریعے مذہبی جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے۔ حالیہ سالوں میں کئی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جہاں سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی جھوٹی معلومات کی وجہ سے لوگوں کو جان سے مارا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت میں سوشل میڈیا اور میڈیا کس حد تک مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے کا باعث بن رہے ہیں۔

عالمی سطح پر بھارت کی تنقید

بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی اور اقلیتوں کے خلاف تشدد کے واقعات پر عالمی سطح پر بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک اور اقوام متحدہ نے بھارت کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ امریکہ کے "کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی” نے بھی بھارت کو مذہبی آزادی کے حوالے سے "تشویشناک ملک” قرار دیا ہے۔

اس تنقید کے باوجود، بھارت کی حکومت عالمی دباؤ کو نظر انداز کرتی نظر آتی ہے اور اپنے ہندوتوا ایجنڈے کو مزید فروغ دینے میں مصروف ہے۔ بھارت کی یہ پالیسی نہ صرف اندرونی سطح پر انتشار پیدا کر رہی ہے بلکہ بین الاقوامی تعلقات میں بھی اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اس کے علاوہ بھارت کی اقتصادی ترقی بھی اس مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے۔ عالمی سرمایہ کاری اور سیاحت کو متاثر کرنے والے عوامل میں مذہبی اور فرقہ وارانہ فسادات اہم ہیں۔ بین الاقوامی کمپنیاں اور سرمایہ کار کسی ایسے ملک میں سرمایہ کاری کرنے سے گریز کرتے ہیں جہاں فرقہ وارانہ کشیدگی ہو، اور اس کا براہ راست اثر بھارت کی اقتصادی ترقی پر پڑتا ہے۔

بھارت کا سماجی ڈھانچہ ہمیشہ سے مذہبی رواداری اور باہمی احترام پر مبنی رہا ہے، لیکن موجودہ حالات نے اس ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بھارت اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں اس کے سیکولر تشخص اور مذہبی رواداری کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

Exit mobile version