اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے خطاب کے دوران پاکستان کا احتجاجاً واک آئوٹ

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کے وفد نے اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کے خطاب کیلئے آنے پر احتجاجاً واک آؤٹ کردیا۔

نیتن یاہو کے اسٹیج پرآتے ہی درجنوں سفارتکار جنرل اسمبلی ہال سے باہر نکل گئے۔

وزیراعظم اپنی تقریر ختم کر کے مقرر کردہ نشست پر پہنچے تو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو خطاب کیلئے مدعو کیا گیا، اس دوران وزیراعظم شہباز شریف سمیت پاکستانی وفد نے احتجاج اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔

نیتن یاہو کے ڈائس پر آنے پر پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے اقوام متحدہ میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے اجلاس کا واک آؤٹ کیا۔

اس کے قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 79ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں اسرائیل کی جانب سے نسل کشی اور قتل عام سمیت دنیا کے نظام کو درپیش سنگین چیلنجز کو دیکھتے ہوئے ہمیں نئے ورلڈ آرڈر گونج سنائی دے رہی ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پاکستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے دوسری بار خطاب کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے جہاں پاکستان پاکستان یو این اسمبلی کا متحرک رکن رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے 1947 میں کہا تھا کہ ہم اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتھ کھڑے ہیں اور دنیا کی امن اور خوشحالی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے اور پاکستان اس عزم کے ساتھ کھڑا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج دنیا کے نظام کو سنگین چیلنجز درپیش ہیں، غزہ میں اسرائیل کی جانب سے نسل کشی اور قتل عام، یوکرین میں خطرناک تنازع، افریقہ اور ایشیا بھر میں تباہ کن تباہ کن تنازعات، دنیا بھر میں بڑھتا ہوا تناؤ، دہشت گردی میں اضافی، بڑھتی ہوئی غربت، ماحولیاتی تبدیلی کے ہمالیا نما چیلنجز کو دیکھتے ہوئے ہمیں نئے ورلڈ آرڈر گونج سنائی دے رہی ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ ان چیلنجز کو دیکھتے ہوئے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے فیوچر سمٹ بلانے کا مطالبہ کیا جس کے نتیجے میں مستقبل کے معاہدوں کے ترقی، امن و سیکیورٹی، ٹیکنالوجی اور عالمی گورننس کے حوالے سے 54 اقدامات کو اپنانے کا معاہدہ طے پانا تھا۔

انہوں نے کہا کہ آج میں آپ کے سامنے غزہ کے عوام کی حالت زار پر پاکستان کے عوام کے درد اور تکلیف کو بیان کرنے کے لیے موجود ہوں، اس مقدس سرزمین پر ہونے والے ظلم پر ہمارے دل خون کے آنسو روتے ہیں، ایک ایسا سانحہ جس نے انسانیت کے ضمیر اور اس ادارے کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب غزہ میں اپنے گھر کے ملبے تلے دفن کیے جا رہے ہیں تو ہم تب بھی خاموش رہیں گے، کیا ہم ان ماؤں کے حوالے سے اپنی آنکھیں بند کر لیں گے جو اپنی جھولیوں میں اپنے بچوں کے بے جان لےشے لیے بیٹھی ہیں، یہ کوئی تنازع نہیں بلکہ فلسطین کے معصوم عوام کو منظم طریقے سے ذبح کرنے کی سازش ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ غزہ کے معصوم بچوں کا خون صرف وہاں ظلم کرنے والوں کے ہاتھوں پر نہیں بلکہ ان کے ہاتھوں پر بھی ہے جنہوں نے تنازع کو طول دیا، ان لوگوں کی درپیش مشکلات کو نظرانداز کر کے ہم انسانیت کا قتل کررہے ہیں، صرف مذمت کافی نہیں بلکہ ہمیں فوری اقدامات کرنا ہوں اور اس قتل عام کو فوری روکنے کا مطالبہ کرنا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ فلسطینیوں کا خون اور قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی، ہمیں ان کو درپیش مشکلات کے بارے میں فکرمند ہونا چاہیے اور ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، ہمیں دو ریاستی حل کے ذریعے پائیدار امن کے قیام کی کوششیں کرنی چاہئیں اور 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک ایسی قابل عمل، محفوظ اور خودمختار ریاست فلسطین قائم کرنی چاہیے جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو اور ان اہداف کے حصول کے لیے فلسطین کو اقوام متحدہ کا مکمل رکن بھی تسلیم کیا جانا چاہیے۔

اس مرحلے پر انہوں نے لبنان پر اسرائیلی بمباری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی بمباری سے خواتین اور بچوں سمیت 500 سے زائد افراد شہید ہوئے، اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد نہ کرنے سے اسرائیل کی حوصلہ افزائی ہوئی اور اس نے پورے مشرق وسطیٰ کے خطے کو جنگ میں جھونکنے کے خطرے سے دوچار کردیا ہے جس کے نتائج انتہائی ہولناک ہوں گے کہ جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ فلسطین کی طرح مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام بھی ایک صدی سے اپنی آزادی اور حق خودارادیت کی جدوجہد کررہے ہیں، امن کی جانب پیش قدمی کے بجائے بھارت اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی جموں و کشمیر کے حوالے سے منظور شدہ قراردودوں کی پاسداری کے وعدوں سے پھر گیا ہے، یہ قراردادیں جموں اور کشمیر کے لوگوں کو حق خود ارادیت کا استعمال کرنے کے قابل بنانے کے لیے رائے شماری کا حکم دیتی ہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ 5 اگست 2019 سے بھارت نے مقبوضہ کشمیر نے یکطرفہ بنیادوں پر غیرقانونی اقدامات کرنے کا آغاز کیا ہے جسے ان کے لیڈرز جموں و کشمیر کا حتمی حل تصور کرتے ہیں، دن رات 9لاکھ بھارتی فوجی مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو طویل کرفیو، ماورائے عدالت قتل اور ہزاروں کشمیری نوجوانوں کے اغوا جیسے انسانیت سوز اقدامات کے ذریعے دہشت زدہ کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی کے ساتھ ہی ایک کلاسک نوآبادیاتی سیکولر منصوبے کے تحت کشمیری سرزمینوں اور جائیدادوں کو غصب کررہا ہے اور جموں و کشمیر میں باہر سے آنے والوں کو آباد کررہا ہے تاکہ مکروہ عزائم کے ذریعے مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر سکے، تمام طرح کی طاقت کے ذریعے اس طرح کے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں لیکن ایسے حربے ہمیشہ ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں اور اللہ نے چاہا تو یہ جموں و کشمیر میں بھی ناکامی سے دوچار ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی قیادت نے کئی مواقع پر لائن آف کنٹرول عبور کر کے آزاد کشمیر پر قبضے کی دھمکیاں دی ہیں لیکن میں دوٹوک انداز میں کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کسی بھی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ پائیدار امن کے قیام کے لیے بھارت اپنے ان یکطرفہ اور غیرقانونی اقدامات کو واپس لے جو اس نے 5 اگست 2019 کے بعد سے کیے ہیں اور مقبوضہ جموں و کشمیر تنازع کے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کے لیے پرامن حل کے لیے مذاکرات کی میز پر آئے۔

وزیر اعظم نے ماحولیاتی تبدیلی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں اور تباہیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ دو سال قبل تباہ کن سیلاب نے میرے ملک کو ہلاک کر رکھ دیا تھا جس سے ہمیں 30ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا، اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ ہر موسم گرما میں درجہ حرارت میں اضافہ ہو گا اور ماحولیاتی تبدیلی کے نئے اثرات ہوں گے۔

Exit mobile version