امریکی صدر اور اسرائیلی وزیراعظم کے درمیان غزہ میں ایک نئے امن منصوبے پر اتفاق
عالمی رہنماؤں کا رد عمل اور 20 نکاتی امن منصوبہ کیا ہے؟

واشنگٹن/ قاہرہ/ یروشلم: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں دو سال پرانی جنگ کو ختم کرنے کے لیے امریکی سرپرستی میں پیش کی جانے والی امن تجویز کے لیے پیر کو اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی حمایت حاصل کر لی لیکن یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ آیا حماس اس منصوبے کو قبول کرے گی۔
امریکی صدر کی نیتن یاہو کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے بعد وائٹ ہاؤس میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ وہ فلسطینی انکلیو کے لئے ایک امن معاہدے کے بہت قریب ہیں۔ انہوں نے حماس کی قیادت کو تنبیہ کی ہے کہ وہ بھی اس منصوبے کو قبول کرے، اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اسرائیل کو ہر وہ کارروائی کرنے کے لئے مکمل امریکی حمایت حاصل ہو گی۔
وائٹ ہاؤس کی جانب اے ایک 20 نکاتی مجوزہ منصوبہ پیش کیا گیا ہے جس میں فوری جنگ بندی، اسرائیل کے زیر حراست فلسطینی قیدیوں کے لئے حماس کے یر غمالیوں کے تبادلے، غزہ سے اسرائیلی انخلاء، حماس کی تخفیف اسلحہ اور بین الاقوامی ادارے کی سربراہی میں عبوری حکومت کے مطالبات شامل تھے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس کی آفیشل ویب سائٹ پر پوسٹ کردہ اس مجوزہ امن منصوبے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 72 گھنٹوں کے اندر حماس 20 زندہ یرغمالیوں اور 2 درجن سے زائد یرغمالیوں کی باقیات اسرائیل کے حوالے کرے جس کے عوض غزہ میں فوجی کارروائیوں کو فوری طور پر ختم کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اس تجویز کے تحت اسرائیلی جیلوں میں موجود درجنوں فلسطینیوں کو رہا بھی کیا جائے گا۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک فلسطینی اہلکار نے بتایا کہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے پیش کردہ منصوبہ حماس کے حکام کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مصری اور قطری حکام نے غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لئے وائٹ ہاؤن کا منصوبہ دوحہ میں حماس کے حکام کے حوالے کر دیا ہے۔
دوسری جانب حماس کے ایک اہلکار کی جانب سے رائٹرز کو بتایا گیا کہ حماس کو ابھی تک یہ منصوبہ سرکاری طور پر موصول نہیں ہوا اور ان کے پاس میڈیا کی جانب سے اطلاعات کے علاوہ کچھ نہیں لیکن بعد میں مذاکرات کے بارے میں بریفنگ دینے والے ایک اہلکار نے بتایا کہ قطر اور مصر نے حماس کے ساتھ دستاویز کا اشتراک کیا، جس نے ثالثوں سے کہا کہ وہ اس کا "نیک نیتی سے” جائزہ لیں گے اور پھر جواب دیں گے۔
وائٹ ہاؤس کی آفیشل ویب سائٹ شیئر کیا گیا مجوزہ منصوبہ:
- غزہ اپنے پڑوسیوں کے لئے خطرہ نہیں ہو گا اور یہ دہشتگردی سے پاک علاقہ ہو گا۔
- غزہ کے شہر کو دوبارہ تعمیر کیا جائے گا جو بہت زیادہ نقصان اٹھا چکے ہیں۔
- اگر دونوں فریقین اس امن منصوبے پر راضی ہو جاتے ہیں تو جنگ فوری ختم ہو جائے گی ، اسرائیلی فوجیں یرغمالیوں کی رہائی کی تیاری کے لئے طے شدہ لائن پر واپس چلی جائیں گے۔ اس دوران تمام فوجی کارروائیاں روک دی جائیں گے اور مکمل انخلاء کی شرائط کے مکمل ہونے تک ہر طرح کی کارروائیاں بند ہوں گی۔
- اسرائیلی حکومت کی جانب سے اس معاہدے کو قبول کرنے کے 72 گھنٹوں کے اندر تمام زندہ اور ہلاک ہونے والے یرغمالیوں کی لاشوں کو واپس کر دیا جائے گا۔
- تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل کی جیلوں میں موجود 240 سے زائد فلسطینی قیدیوں کے علاوہ 2023 کے بعد حراست میں لئے جانے والے 1500 سے زائد قیدیوں کو بھی رہا کرے گا جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ہر اسرائیلی یرغمالی کی باقیات کے بدلے اسرائیل 15 فلسطینی مقتولین کی باقیات واپس کرے گا۔
- تمام یرغمالیوں کے تبادلوں کے بعد حماس کے وہ اراکین جو پر امن بقائے باہمی کا وعدہ کریں گے اور اپنے ہتھیار ڈال دیں گے انہیں عام معافی دی جائےگی۔حماس کے وہ اراکین جو غزہ سے جانا چاہیں گے انہیں ان ممالک تک محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا جو انہیں وصول کرنے کے لئے تیار ہوں گے۔
- اس امن منصوبے کی منظوری کے بعد فوری طور پر غزہ کے لئے مکمل امداد کھول دی جائے گی، امداد کی مقدار 19 جنوری 2025 میں ہونے والے انسانی امداد کے معاہدے کے مطابق ہو گی۔
- غزہ کی پٹی میں امداد کا داخلہ اور تقسیم دونوں فریقوں، اسرائیل اور حماس، کی مداخلت کے بغیر اقوام متحدہ اور اس کی ایجنسیوں، اور ہلال احمر کے علاوہ دیگر بین الاقوامی اداروں کے ذریعے ہو گی۔ اس کے علاوہ کسی ایسی تنظیم کو بھی امدادی کارروائیوں کی اجازت نہ ہو گی جو کسی بھی فریق کے ساتھ کسی بھی طرح سے وابستہ ہو۔ رفح کراسنگ کو دونوں سمتوں میں کھولنا 19 جنوری 2025 کے معاہدے کے تحت نافذ کردہ اسی طریقہ کار سے مشروط ہو گا۔
- غزہ میں ایک ٹیکنوکریٹک، غیر سیاسی فلسطینی کمیٹی کی عارضی عبوری حکومت قائم کی جائے گی، جو غزہ میں عوامی خدمات اور بلدیاتی ادارے چلانے کی ذمہ دار ہو گی۔ یہ کمیٹی اہل فلسطینیوں اور بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل ہو گی۔ اس کمیٹی کی نگرانی ایک نیا بین الاقوامی عبوری ادارہ ’بورڈ آف پیس‘ کرے گا، جس کی سربراہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے۔ اس بورڈ میں برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر بھی شامل ہوں گے جبکہ دیگر اراکین اور سربراہان مملکت کا اعلان بھی کیا جائے گا۔ یہ ادارہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے فریم ورک کا تعین کرے گا اور اس وقت تک فنڈز کو سنبھالے گا جب تک کہ فلسطینی اتھارٹی غزہ کا مؤثر طریقے سے کنٹرول سنبھال نہیں لیتی اور اپنا اصلاحاتی پروگرام مکمل نہیں کر لیتی جیسا کہ صدر ٹرمپ کے 2020 کے امن منصوبے اور سعودی فرانسیسی منصوبے جیسی مختلف تجاویز میں بیان کیا گیا ہے۔
- غزہ کی تعمیر نو کے لیے ٹرمپ کے اقتصادی ترقی کا منصوبہ ایسے ماہرین کا پینل تیار کرے گا جنھوں نے مشرق وسطیٰ میں ترقی پذیر جدید شہروں میں سے کچھ کو بنانے مدد دی تھی۔
- ایک خصوصی اقتصادی زون کو ترجیحی ٹیرف اور رسائی کی شرحوں کے ساتھ قائم کیا جائے گا۔
- کسی کو بھی غزہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا، اور جو غزہ چھوڑنا چاہیں گے وہ ایسا کرنے کے لیے آزاد ہوں گے اور وہاں واپس آنے کے لیے بھی۔ ہم لوگوں کو وہاں رہنے کی ترغیب دیں گے اور انھیں ایک بہتر غزہ کی تعمیر کا موقع فراہم کریں گے۔
- حماس اور دیگر دھڑے اس بات پر اتفاق کریں گے کہ غزہ کی حکمرانی میں براہ راست، بالواسطہ یا کسی بھی صورت میں کوئی کردار ادا نہیں کریں گے۔ تمام فوجی، دہشت گردی اور جارحانہ انفراسٹرکچر بشمول سرنگوں اور ہتھیاروں کی تیاری کی سہولیات کو تباہ کر دیا جائے گا اور دوبارہ تعمیر نہیں کیا جائے گا۔ آزاد ماہرین کی نگرانی میں غزہ کو غیر فوجی زون بنانے کا عمل ہو گا، جس میں ہتھیاروں کو مستقل طور پر ناقابلِ استعمال بنایا جائے گا اور جس کی تصدیق ایک متفقہ عمل کے ذریعے کی جائے گی۔ اس عمل کو بین الاقوامی طور پر مالی اعانت سے چلنے والے بائ بیک اور دوبارہ انضمام کے پروگرام کے ذریعے مکمل کیا جائے گا۔ نیا غزہ ایک خوشحال معیشت کی تعمیر اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے لیے پوری طرح پرعزم ہے۔
- خطے میں موجود شراکت دار اس بات کی ضمانت فراہم کریں گے کہ حماس اور دیگر دھڑے اپنی ذمہ داریوں کی تعمیل کریں گے اور یہ کہ نیو غزہ اس کے پڑوسیوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔
- امریکہ اپنے عرب اور دیگر بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر غزہ میں فوری طور پر تعیناتی کے لیے ایک عارضی انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس (آئی ایس ایف) تیار کی جائے گی۔ آئی ایس ایف غزہ میں جانچ شدہ فلسطینی پولیس فورسز کو تربیت اور مدد فراہم کرے گا، اور اس معاملے میں اُردن اور مصر سے مشاورت کرے گا جنھیں اس شعبے میں وسیع تجربہ ہے۔ یہ فورس طویل مدتی داخلی سلامتی کا حل ہو گی۔ آئی ایس ایف اسرائیل اور مصر کے ساتھ مل کر سرحدوں محفوظ بنانے میں مدد دے گی۔ اس کام میں نئی تربیت یافتہ فلسطینی پولیس فورسز بھی شامل ہو گی۔ کسی بھی طرح کے جنگی سازوسامان کو غزہ میں داخل ہونے سے روکنا اور غزہ کی تعمیر نو اور بحالی کے لیے سامان کی تیز رفتار اور محفوظ منتقلی کو آسان بنانا بہت ضروری ہے۔ فریقین کے درمیان تنازعات کے خاتمے کے طریقہ کار پر اتفاق کیا جائے گا۔
- اسرائیل غزہ پر قبضہ یا اس کا اسرائیل کے ساتھ الحاق نہیں کرے گا۔ جیسے جیسے آئی ایس ایف کنٹرول سنبھالتی جائے گی، اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) پہلے سے طے شدہ سنگ میلوں اور ٹائم فریموں کی بنیاد پر وہاں سے انخلا کرتی جائے گی جس پر اسرائیلی فوج، آئی ایس ایف، ضامنوں اور امریکہ پر پہلے سے اتفاق ہو گا۔ اس مقصد یہ یقینی بنانا ہوا ہو گا کہ اسرائیل، مصر یا اس کے شہریوں کے لیے اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔ عملی طور پر، غزہ کی عبوری اتھارٹی کے ساتھ طے شدہ معاہدے کے تحت آئی ڈی ایف آہستہ آہستہ غزہ کا کنٹرول آئی ایس ایف کے حوالے کر دے گی۔ تاہم وہ اپنی وہ حفاظتی مقصد سے اس وقت تک اپنی موجودگی برقرار رکھے گی جب تک یہ یقینی نہیں بنا لیا جاتا کہ غزہ کے کسی بھی ممکنہ دہشت گردی کے خطرے کا سبب نہیں بنے گا۔
- اگر حماس اس تجویز کو مسترد کرتا ہے یا اس کی منظوری میں تاخیر کرتا ہے تو اس اثنا میں اسرائیلی فوج دہشت گردی سے پاک علاقے آئِ ایس ایف کے حوالے کر دے گی اور وہاں یہ منصوبہ شروع کر دیا جائے گا۔
- ایک بین المذاہب مکالمے کا عمل شروع کیا جائے گا تاکہ امن سے حاصل ہونے والے فوائد پر زور دے کر فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی ذہنیت اور بیانیے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جا سکے۔
- جب غزہ کی دوبارہ ترقی اور فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اصلاحاتی پروگرام پر عمل کے ساتھ ہی بالآخر فلسطینیوں کی خود ارادیت اور ریاست کے لیے حالات سازگار ہو سکیں گے جسے ہم فلسطینی عوام کی خواہش کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔
- امریکہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان پرامن اور خوشحال بقائے باہمی کے لیے مذاکرات کروائے گا۔
عالمی رہنماؤں کا رد عمل کیا ہے؟
برطانوی وزیر اعظم سر کیر سٹارمر نے اس امن منصوبے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے کو حتمی شکل دینے اور اسے حقیقت میں بدلنے کے لئے امریکی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔
اس حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ حماس کو اب ہتھیار ڈال کر اور باقی تمام یرغمالیوں کی رہائی کے لئے اس منصوبے پر اتفاق کر لینا چاہئے تاکہ غزہ کے عوام کے مصائب کا خاتمہ ہو سکے۔
دوسری جانب فرانسیسی صدر میکرون نے بھی اس منصوبے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ فرانس بھی اس امن منصوبے میں جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی رہائی کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے تیار ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل اور حماس کو دو ریاستی حل کی بنیاد پر خطے میں دیرپا امن قائم کرنے کے لیے تمام متعلقہ شراکت داروں کے ساتھ بات چیت کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔