امریکا کی خارجہ پالیسی بحران کا شکار؟ 1300 ملازمین فارغ
21 ویں صدی کے سفارتی اور دیگر چیلنجز سے نمٹنے کے لئے اصلاحات ضروری ہیں، مارکو روبیو

واشنگٹن: امریکی محکمہ خارجہ نے 1300سے زائد سرکاری ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، جو اس کی تاریخ کی سب سے بڑی تنظیم نو کی کوششوں میں سے ایک قرار دی جا رہی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق اس اقدام کا مقصد مبینہ طور پر محکمہ کو "زیادہ مؤثر، لچکدار اور جدید” بنانا ہے تاہم تنقید کرنے والوں نے اس اقدام کو غیر ذمے دارانہ اور خطرناک قرار دے دیاہے۔
رائٹرز نے رپورٹ میں بتایا کہ اس سرکاری ملازمت سے فارغ ہونے والوں میں 1107 سول سروس ملازمیں اور 246 غیر ملکی سروس افسران شامل ہیں۔ دوسری جانب اس تعداد کی ایسوسی ایٹڈ پریس نے بھی تصدیق کر دی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ملائیشیا کے دورے کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ کئی مہینوں کی منصوبہ بندی اور جائزے کے بعد لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہفتہ پہلے ہی کانگریس کو اس منصوبے کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا، یہ منصوبہ ڈیزائن کرنے میں ہمیں کئی مہینیں لگے ہیں۔
عدالتی رکاوٹیں اور سپریم کورٹ کا فیصلہ
واضح رہے کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے پہلے اپریل میں اس تنظیم نو کا اعلان کیا تھا تاہم مئی میں عدالت نے اسے روک دیا تھا۔ 8 جولائی کو امریکی سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے محکمہ خارجہ کو اس منصوبے کو جاری رکھنے اور سرکاری ملازمین کو فارغ کرنے کے عمل کے ساتھ آگے بڑھنے کی اجازت دے دی۔ امریکی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ تب آیا جب ہائیکورٹ میں اس حوالے سے سماعت جاری تھی۔
واضح رہے کہ امریکی محکمہ خارجہ میں اس وقت تقریباً 80 ہزار سے زائد ملازمین کام کر رہے ہیں جب میں 14 ہزار غیر ملکی سروس افسران اور 13 ہزار سول سروس ملازمین ہیں۔
مارکو روبیو کے مطابق محکمے کی حالت اس وقت اتنی پیچیدہ اور سست ہو چکی ہے، ایسے 21 ویں صدی کے سفارتی اور دیگر چیلنجز سے نمٹنے کے لئے اصلاحات ضروری ہو گئیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ محکمہ جدید خطوط پر استوار کیا جائے تاکہ عوام کے پیسے کا بہتر استعمال ہو سکے اور امریکہ سفارت کاری میں دوبارہ اپنا کھویا ہوا مقام قائم کر سکے۔
دفاتر بند، پروگرام ختم
محکمہ خارجہ کی اس منصوبہ بندی کے مطابق کئی غیر موثر اور غیر فعال دفاتر کو ختم کر دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ امریکا کے قومی مفادات کے خلاف سمجھنے جانے والے پروگرامز کو بھی بند کر دیا جائے گا۔
امریکی وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا کہ ان اصلاحات سے نہ صرف محکمہ خارجہ کی سفارتی کارکردگی بہتر ہوگی بلکہ سرکاری وسائل کے ضیاع اور اخراجات میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔
دوسری جانب اس فیصلے کے بعد کانگریس میں تشویش کی لہر دوڑ گئی،
سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کی چیئرپرسن سینیٹر جین شاہین نے کہا کہ یوکرین، غزہ، ہیٹی، سوڈان اور میانمار جیسے ممالک میں جاری بحرانوں کے دوران محکمہ خارجہ کی افرادی قوت کو کم کرنا امریکہ کی خارجہ پالیسی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اپنے سفارتی اداروں کو کمزور کرنے کے بجائے مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔
محکمہ خارجہ نے مئی میں کانگریس کو 1009 ملازمین کو فارغ کرنے کی تجویز پیش کی تھی اور ان میں وہ ملازمین بھی شامل تھے جنہوں نے رضاکارانہ طور پر اگلے چند مہینوں میں استعفیٰ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق ایسے ملازمین کی تعداد تقریباً 1575 کے قریب ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں سرکاری ملازمتوں پر پابندی کی اصل وجہ؟ حکومت کا وضاحتی بیان
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کا یہ اقدام تنظیم نو کی حد تک محدود نہیں بلکہ مستقبل میں امریکی سفارت کاری کی سمت کو تبدیل کر سکتا ہے۔
دوسری جانب تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ کٹوتیاں اور ملازمتوں سے فارغ کرنے سے امریکا کی بین الاقوامی ساکھ مزید متاثر ہو سکتی ہے۔ موجودہ عالمی حالات، جنگ، مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام اور افریقہ و ایشیا میں انسانی بحران کے دوران سفارتی قوت میں کمی ایک غیر دانشمندانہ قدم ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسی صورتحال میں سفارت کاری جیسے نازک اور حساس شعبے میں ملازمتوں سے فارغ کرنا بیرونی تعلقات کے علاوہ اندرونی سیاسی ماحول بھی متاثر کر سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ سینیٹر جین شاہین اور دیگر ماہرین کے خدشات کو نظر انداز کرنا امریکی مفادات کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ یہ اقدامات اس وقت مؤثر ثابت ہوں گے جب فیصلے شفاف انداز میں کیے جائیں اور عوامی مفاد کو ترجیح دی جائے۔