2 گھنٹے پکانا، 10 منٹ کھانا: کیا یہ دنیا کا سب سے بڑا دھوکہ ہے؟
روزمرہ کا ایک سچ !جسے سب جانتے ہیں مگر کوئی بولتا نہیں

لاہور: دنیا بھر میں انسان نے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اپنی زندگی کو آسان بنانے کے لیے کئی ایجادات کیں مگر کھانے پکانے کا عمل ایک ایسا روزمرہ مشن ہے جو آج بھی صدیوں پرانے طرز پر جاری ہے، وقت طلب، محنت طلب اور بعض اوقات اعصاب شکن بھی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس عمل میں دو سے تین گھنٹے لگ جاتے ہیں، لیکن کھانے میں صرف چند منٹ ہی لگتے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہےکہ کیا 2گھنٹے کا کھانا پکانا اور 10منٹ میں کھا جانا واقعی دنیا کا سب سے بڑا دھوکہ ہے؟۔
روزمرہ کا ایک سچ !جسے سب جانتے ہیں مگر کوئی بولتا نہیں
اگر آپ نے کبھی خود سے یا اپنے گھر کی کسی فرد سے یہ سوال کیا ہو کہ آخر کھانے پکانے میں اتنا وقت کیوں لگتا ہے؟ تو ممکنہ جواب ہوگا، یہ ایک ضروری کام ہے!لیکن اگر اسی کھانے کو 10 منٹ میں چٹ کر دیا جائے تو محنت کرنے والے کے دل میں بے ساختہ یہ خیال آتا ہے: کیا اتنی مشقت کا یہی صلہ تھا؟
ایسی طرح ایک گھریلو واقعے کی طرف توجہ دیتے ہیں، ماہ نور لاہور کی ایک گھریلو خاتون اور دو بچوں کی ماں ہیں، جو روزانہ صبح 8 بجے سے دوپہر 1 بجے تک صرف ناشتہ اور دوپہر کے کھانے کی تیاری میں مصروف رہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں روزانہ 2 سے 3 گھنٹے صرف اس لیے کچن میں گزارتی ہوں تاکہ سب کچھ تازہ اور صحت بخش ہو لیکن جب بچے 10 منٹ میں پلیٹ صاف کر دیتے ہیں اور بغیر شکریہ کہے اُٹھ جاتے ہیں، تو لگتا ہے جیسے میری محنت کو کوئی سمجھ ہی نہیں پایا۔

معاشرتی دباؤ یا ثقافتی روایت؟
جنوبی ایشیاء کے ممالک جیسے پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں کھانے پکانے کو صرف ضرورت نہیں بلکہ ایک روایتی فرض سمجھا جاتا ہے۔ عورت کی قدر کا تعین اکثر اس بات سے کیا جاتا ہے کہ وہ کتنا اچھا کھانا پکاتی ہے اور کتنا وقت کچن میں گزارتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید زندگی کی تیز رفتار میں بھی روایتی طرزِ پکوان کو تبدیل کرنے کی جرأت کم ہی لوگ کرتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک نفسیاتی اور سماجی دھوکہ ہے۔ ہم نے نسل در نسل یہ مان لیا ہے کہ محنت کا کھانا ہی اصل کھانا ہے اور جلدی میں بنے کھانے کو کم تر سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے عورتیں یا گھر کے افراد خود کو مجبور سمجھتے ہیں کہ وہ وقت ضائع کریں، چاہے جدید حل دستیاب کیوں نہ ہوں۔
صحت یا وقت کس کی ترجیح زیادہ ہے؟
آج کے دور میں جہاں فاسٹ فوڈ، پری کوکڈ اشیاء اور فریزنگ ٹیکنالوجی عام ہو چکی ہے، وہاں سوال یہ بھی بنتا ہے کہ کیا واقعی دو گھنٹے کی محنت ضروری ہے؟ کیا ہم صحت بخش کھانے کے ساتھ وقت کی بچت نہیں کر سکتے؟
اسی حوالے سے ایک شخص کا کہنا تھا کہ میں روزانہ آفس کے کام کو مکمل کرتا ہوں اور گھر کا کام بھی خود ہی کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں 10 یا 15 منٹ میں مائیکرو ویو میں براؤن رائس تیار کر کے کھاتا ہوں اور مسلسل پورا دن گزارتا ہوں۔ اس سے نہ تو زیادہ برتن گندے ہوتے ہیں اور نہ وقت ضائع ہوتا ہے اور صحت کے لحاظ سے بھی بہت بہتر ہے۔
صرف کھانا نہیں، جذبہ بھی پکایا جاتا ہے
اگرچہ عقلی اعتبار سے بات کی جائے تو یہ دھوکہ محسوس ہوتا ہے لیکن جذباتی طور پر اس میں قربانی، محبت اور خلوص کی ایک دنیا چھپی ہوتی ہے۔
ماں کے ہاتھ کا کھانا صرف ذائقے کی بات نہیں بلکہ اس محنت کی کہانی ہے جو ماں نے خاموشی سے انجام دی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کا سب سے مہنگا کھانا بھی ماں کے ہاتھ کے سادہ دال چاول کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
ڈیجیٹل دور کا حل: سمارٹ کچن اور AI باورچی
ٹیکنالوجی یہاں بھی خاموشی سے انقلاب لا رہی ہے۔ اب سمارٹ کچن ایپلائنسز، AI-based cooking robots، اور meal prep apps کے ذریعے کھانا پکانے کا وقت آدھا کیا جا سکتا ہے۔
جاپان اور جنوبی کوریا میں ایسے روبوٹس متعارف ہو چکے ہیں جو ریسپی کے مطابق بغیر کسی انسانی محنت کے مکمل کھانا پکا سکتے ہیں۔ پاکستان میں بھی کچ اسٹارٹ اپس پری کوکڈ اور ہیلتھی میلز کی ڈیلیوری سروس دے رہے ہیں۔
نیا لائف اسٹائل: ایک کھانا خاص، باقی آسان
ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگوں کو اپنے نئے لائف سٹائل کے مطابق زندگی گزارنی چاہئے یا اپنی زندگی میں کچھ مثبت تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے، ماہرین نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ جیسے اتوار کے روز یعنی چھٹی کے دن تفصیلی اور خاص کھانے پکائیں اور اپنی فیملی کے ساتھ ڈنر کریں، باقی عام دنوں میں آسان یعنی کم وقت صرف کرنے والے مگر صحت بخش کھانے بنائیں۔ اس سے وقت توانائی اور ذہنی سکون تینوں کا توازن رہے گا۔
یہ دھوکہ ہے، مگر ایسا جو ہم خود مانتے ہیں
2 گھنٹے کھانا پکانا اور 10 منٹ میں کھا جانا بظاہر ایک "دھوکہ” محسوس ہوتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ہمارا اپنا پیدا کردہ جال ہے جسے ہم روایت، محبت، یا لاشعوری توقعات کی زنجیروں سے باندھے ہوئے ہیں۔
اب وقت ہے کہ ہم سوال اٹھائیں اور بہتر حل تلاش کریں کیونکہ زندگی صرف کچن اور پلیٹ تک محدود نہیں یہ وقت، ذہن اور دل کی وسعتوں کا بھی نام ہے۔
کیا آپ بھی کھانے پکانے کے اس "دھوکے” کا شکار ہیں؟ اپنی رائے ہمیں کمنٹ میں ضرور بتائیں۔