سندھ کے ساحلی علاقوں میں شدید موسمیاتی دباؤ، ٹھٹھہ اور بدین کیلئے انتباہ جاری
اس بار مون سون میں معمول سے 13 فیصد زیادہ بارش کا امکان ہے ، موسمیاتی ماہرین

کراچی/ٹھٹھہ/بدین: صرف دس دنوں کی مون سون بارشوں کے دوران 70 سے زائد جانیں ضائع اور 130 سے زائد زخمی ہونے کے ساتھ، پاکستان کو موسم کے ایک اور ممکنہ تباہ کن دور کا سامنا ہے۔
موسمیاتی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اس بار مون سون میں معمول سے 13 فیصد زیادہ بارش کا امکان ہے اور اس کا سب سے زیادہ خطرہ سندھ کے ساحلی اضلاع ٹھٹھہ اور بدین کو لاحق ہے وہ علاقے جو برسوں سے نظر انداز ہوتے رہے ہیں لیکن اب موسمیاتی تبدیلی کے فرنٹ لائن پر نمایاں ہو چکے ہیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق پاکستان اب ایسے شدید موسمی حالات کا سامنا کر رہا ہے جو پہلے کم و بیش غیر معمولی ہوتے تھے۔ سیلاب، خشک سالی اور درجہ حرارت میں شدید اتار چڑھاؤ اب روزمرہ کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ پاکستان عالمی اخراج کا بڑا حصہ دار نہیں لیکن موسمیاتی نتائج کا سب سے بڑا شکار ضرور ہے۔
بارش کا نیا انداز: قلیل المدت، شدید اور مہلک
پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ (PMD) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فرخ بشیر کے مطابق بارشوں کی نوعیت میں واضح تبدیلی آ چکی ہے۔ اب بارش زیادہ مختصر دورانیے کی ہوتی ہے مگر شدت کہیں زیادہ ہوتی ہے، جس کے باعث شہری و دیہی علاقوں میں نکاسی آب کا نظام ناکام ہو جاتا ہے۔ حالیہ سوات کے واقعے میں دریا کا بہاؤ 77,782 کیوسک تک پہنچ گیا، جس کے نتیجے میں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
جنوبی سندھ، جو ماضی میں مغربی خشک ہواؤں کے زیرِ اثر ہوتا تھا، اب مشرق سے آنے والی نم ہواؤں کا مرکز بن چکا ہے۔ خلیج بنگال سے اٹھنے والی مرطوب ہوائیں، جب کم دباؤ کے نظام سے ٹکراتی ہیں، تو ٹھٹھہ اور بدین جیسے نشیبی علاقوں میں تباہ کن بارشوں کا سبب بنتی ہیں۔ 2022 میں بدترین تباہی دیکھی گئی جب نکاسی آب کے ناقص انتظام کے باعث سڑکیں ندیوں میں بدل گئیں اور بستیاں پانی میں ڈوب گئیں۔
کیٹی بندر اور بدین جیسے ساحلی علاقوں میں سمندر کی سطح میں اضافہ ایک اور خطرہ ہے جو اندرونِ ملک زمینوں پر حملہ آور ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگلے 5 سے 10 سال میں یہ سمندری تجاوزات مزید بڑھیں گے، جس سے زرعی زمینیں بیکار اور پینے کا پانی آلودہ ہونے کا خطرہ ہے۔
ابتدائی وارننگ سسٹم ناکافی، عملدرآمد میں تاخیر
ڈاکٹر فرخ بشیر کے مطابق اگرچہ محکمہ موسمیات بروقت وارننگ جاری کرتا ہے لیکن ضلعی سطح پر ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ 2010 کے عطا آباد جھیل کے واقعے میں کامیاب انخلاء کو حالیہ سوات کے سیلاب سے موازنہ کرتے ہیں جہاں ردعمل میں تاخیر نے نقصان بڑھا دیا۔
حل کیا ہے؟ لچکدار نظام، مقامی قیادت، اور ہوشیار انفراسٹرکچر
ضلعی اداروں کو بااختیار بنانا ہوگا تاکہ وہ بروقت فیصلے کر سکیں۔
کمیونٹی کی قیادت میں انخلاء کے منصوبے تیار کیے جائیں۔
نکاسی آب کے جدید نظام اور پانی جمع ہونے والے مقامات کی نشاندہی ناگزیر ہے۔
بارش کے پانی کا ذخیرہ، مقامی پناہ گاہیں اور کولنگ زونز جیسے کم لاگت حل بھی مؤثر ہو سکتے ہیں۔
ہم کہاں جائیں؟ مقامی باشندوں کی بے بسی!
ٹھٹھہ اور بدین میں بیشتر لوگ کھیتی باڑی اور مویشی پالنے پر انحصار کرتے ہیں۔ 38 سالہ نسیمہ، جو چار بچوں کی ماں ہیں، کہتی ہیں کہ "ریڈیو پر سیلاب کی وارننگ سنتے ہیں مگر جائیں تو کہاں؟ مویشی ہمارا سب کچھ ہیں۔ چھوڑ کر جائیں تو بھوکے مر جائیں گے۔ اس لیے رہتے ہیں، چاہے پانی جتنا بھی بڑھ جائے۔”
صرف ٹیکنالوجی نہیں، عمل بھی ضروری
پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر GLOF مانیٹرنگ، سونامی وارننگ سسٹم، اور دیگر جدید ٹولز موجود ہیں لیکن ان کا فائدہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب حکومت فوری ایکشن لے اور عوام ان سے آگاہ ہوں۔ ڈاکٹر بشیر کا کہنا ہے کہ "ٹیکنالوجی اہم ہے، لیکن بروقت فیصلے اور عوام کی شراکت اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔”
وقت کم ہے، مگر امید باقی ہے!
اگرچہ پاکستان کو درپیش موسمیاتی چیلنجز شدید ہیں لیکن یہ ناقابلِ حل نہیں۔ سمارٹ پالیسی سازی، ٹارگٹڈ سرمایہ کاری اور مقامی کمیونٹیز کو بااختیار بنا کر ہم ٹھٹھہ اور بدین جیسے علاقوں کو خطرے کے زون سے نکال کر لچک دار ماڈلز میں بدل سکتے ہیں۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے لیکن ہمارے پاس آج بھی وہ موقع ہے کہ ہم آنے والے کل کو محفوظ اور مستحکم بنا سکیں۔