قومی اسمبلی: وفاقی بجٹ میں کثرت رائے سے منظور، اپوزیشن کی تمام تجاویز مسترد
قومی اسمبلی میں ووٹنگ کے دوران 201 اراکین قومی اسمبلی نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا

اسلام آباد: قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2025-26 کا 17 ہزار 573 ارب روپے کا وفاقی بجٹ کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت آئندہ مالی سال کے بجٹ کی شق وار منظوری کے عمل کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا، وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے بھی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی۔
اجلاس میں وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ منظور کرنے کی تحاریک پیش کیں جیسے منظور کر لیا گیا جبکہ کاربن لیوی سے متعلق اپوزیشن کی تمام ترامیم مسترد کر دی گئیں۔
قومی اسمبلی میں بجٹ کی شق وار منظوری سے پہلے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بجٹ پر ارکان نے کئی دنوں تفصیلی بحث کی تھی ، بعد ازاں وفاقی کابینہ نے فنانس بل کی منظوری دے دی تھی۔
بجٹ اجلاس میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی کسٹمز ایکٹ سے متعلق ترامیم منظور کر لی گئیں، قومی اسمبلی میں ووٹنگ کے دوران 201 اراکین قومی اسمبلی نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا جبکہ اپوزیشن کی تمام ترامیم کثرت رائے سے مسترد کر دی گئیں۔
قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں وزیر خزانہ کی جانب سے سیلز ٹیکس 1990میں ترامیم بھی کثرت رائے سے منظور کر لی گئیں۔
اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ کی ٹیکس فراڈ میں ملوث تاجروں کی گرفتاری کے اختیارات کمیٹی کو دینے کی ترمیم بھی منظور کرلی گئی، جس کے مطابق کمیٹی پانچ کروڑ سے زائد کے ٹیکس فراڈ میں ملوث تاجر کی گرفتاری کے اجازت دینے کی مجاز ہو گی۔
وفاقی حکومت نے اس سے قبل ٹیکس کمشنر کو گرفتاری کے اختیارات دینے کی ترمیم تجویز کی تھی۔
ترمیم کے تحت تحقیقات کے مرحلے میں ایف بی آر کے پاس گرفتاری کا اختیار نہیں ہو گا، دوسری جانب اپوزیشن کی جانب سے سیلز ٹیکس ایکٹ میں متعارف کردہ تمام ترامیم کثرتِ رائے سے مسترد کردی گئیں۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں ارکان کی جانب سے ترامیم پیش کرنے کا عمل بھی جاری ہے، اس دوران حکومت کی جانب سے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب ارکان کی پیش کی جانے والی ترامیم سے متعلق حمایت یا مخالفت میں اپنی رائے پیش کر رہے ہیں۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں اسپیکر نے وزیر خزانہ کو مشورہ دیا کہ مائیک نیچے کرلیں بار بار اٹھیں گے تو کمر میں درد ہوگا، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے مسکراتے ہوئے مائیک نیچے کرلیا۔
قومی اسمبلی میں سیلریز اینڈ الاؤنس ایکٹ میں ترمیم پیش کی گئی، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی ترمیم کی حمایت کی گئی، جس کے مطابق وفاقی وزرا اور وزرائے مملکت اراکین کے برابر تنخواہ لیں گے، سیلریز اینڈ الاؤنس ایکٹ 1975 میں ترمیم کثرت رائے سے منظور کرلی گئی۔
قبل ازیں قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت میں شروع ہوا، تو وزیر خزانہ اورنگزیب نے مالی بل 2025 قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کردہ صورت میں زیر غور لانے کی تحریک پیش کی، اپوزیشن کی جانب سے تحریک کی مخالفت کی گئی۔
پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے چیف وہپ عامر ڈوگر نے کہا کہ اپوزیشن نے اس تحریک کی مخالفت کی ہے، ہمیں اس تحریک پر بات کرنے کی اجازت دی جائے، اسپیکر قومی اسمبلی نے تحریک پر اپوزیشن کو بات کرنے کی اجازت نہیں دی۔
سنی اتحاد کونسل کے محمد مبین عارف اور جمیعت علمائے اسلام ف کی عالیہ کامران نے فنانس بل کو رائے عامہ کے لیے عام کرنے کی تحریک پیش کی، سنی اتحاد کونسل کے محمد مبین عارف، جمیعت علمائے اسلام ف کی عالیہ کامران کی تحاریک کثرت رائے سے مسترد کردی گئی۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں لطیف کھوسہ نے کہا کہ اگر اسی طرح بجٹ پاس کریں گے تو بھکاری ہی رہ جائیں گے، سیاسی استحکام ہوگا تو معاشی استحکام ہوگا
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ اس بجٹ میں 64 فیصد خسارہ ہے، موجودہ بجٹ ملک اور قوم کے لیے گھاٹے کا بجٹ ہے، اللہ نہ کرے سری لنکا کا سلسلہ چل نکلے، حکومت نے ریفارمز لانے کے لیے اقدامات نہیں کیے، پچھلے بجٹ میں 313 ارب روپے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے ذریعے تقسیم کیے گئے ، اگر منصفانہ تقسیم ہوتی تو بہاولپور میں ایک خاتون کی موت نہ ہوتی۔
جنید اکبر نے کہا کہ جن کا مینڈیٹ نہ ہو، وہ عوام کا خیال نہیں رکھتے، جنہوں نے ان کو لایا یہ ان کا خیال رکھتے ہیں، فاٹا، پاٹا کے ساتھ حکومت کا وعدہ پورا نہیں ہوا ، ہر سال ایک سو ارب روپے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، دس سال تک سیلز ٹیکس سے استثنیٰ کی بات کی گئی تھی، پہلے فاٹا کے عوام کو ٹیکس دینے کے قابل تو بنائیں، فاٹا پر ٹیکس کی ایوان کے اندر اور باہر مخالفت کریں گے۔
اپوزیشن کا شور شرابہ اور سخت احتجاج
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے آئندہ مالی سال کے لیے مالی تجاویز کو روبہ عمل لانے اور بعض قوانین میں ترمیم کی تحریک پیش کی، تو اپوزیشن نے شور شرابہ اور سخت احتجاج کیا۔
عاطف خان نے کہا کہ حکومت کے دعوؤں کے مطابق حالات بہتر ہوتے تو ہمارے نوجوان ملک سے باہر کیوں بھاگتے؟۔ ہر روز ہم سنتے ہیں کہ کشتی کے حادثات میں سیکڑوں پاکستانی جان سے چلے گئے، لوگ قرضے مانگ کر اور چیزیں بیچ کر بجلی کے بل ادا کر رہے ہیں، لوگوں کی اتنی آمدن نہیں جتنے ان کے بجلی کے بل آرہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ نیب کے پاس جتنے اختیارات ہیں، دنیا میں شاید کسی ادارے کے پاس اتنے اختیارات نہیں، جائزہ لیا جائے کہ جب سے نیب بنا ہے پاکستان میں کرپشن زیادہ ہوئی ہے یا اس میں کمی آئی ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا کہ کل چیئرمین نیب پارلیمنٹ آئے تھے، انہوں نے نیب کی کارکردگی کے حوالے سے بریف کیا ہے وہ آپ پڑھیے گا، عاطف صاحب آپ کو وہ بریف دلچسپ لگے گا۔
پاور ڈسٹری بیوشن ایکٹ میں بھی حکومت ترمیم کر رہی ہے اور نزلہ عوام پر گرایا جا رہا ہے، عالیہ کامران
رکن قومی اسمبلی عالیہ کامران نے کہا کہ پاور ڈسٹری بیوشن ایکٹ میں بھی حکومت ترمیم کر رہی ہے اور نزلہ عوام پر گرایا جا رہا ہے، دنیا بھر میں پاور کنزمبشن ترقی کا پیمانہ ہے، ہمارے یہاں توانائی مہنگی سے مہنگی ہوتی جا رہی ہے، حکومت روش بنا لی ہے کہ جو بل سینٹ سے پاس نہیں ہوسکتے، انہیں فائنانس بل میں پاس کروا لیا جاتا ہے۔
یہ عوام دشمن بجٹ ہے، عامر ڈوگر
ملک عامر ڈوگر نے کہا کہ یہ عوام کا نہیں بلکہ عالمی مالیاتی بجٹ (آئی ایم ایف) کا بجٹ ہے، زراعت کا شعبہ بری طرح تنزلی کا شکار ہے، لوگوں کو یقین ہوگیا کہ یہ زراعت دشمن حکومت ہے، زرعی آلات پر اٹھارہ فیصد ٹیکس ختم کیا جائے، ہم نے کسانوں کو بجلی پر اٹھارہ روپے فی یونٹ سبسڈی دی تھی، آپ ایف بی آر کو اختیار دے حکومت جب چاہے 90 روپے پیٹرولیم پر لیوی لگا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ عوام دشمن بجٹ ہے، تحریک انصاف بانی پی ٹی آئی عمران خان کے نظریئے پر قائم ہے، یہ ناکام ترین حکومت ہے ان کے پاس کوئی مینڈیٹ نہیں ہے۔
بجٹ میں خواتین اور نوجوانوں سے متعلق کچھ نہیں ہے، زرتاج گل
رکن قومی اسمبلی زرتاج گل نے کہا کہ بجٹ میں موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق کوئی توجہ نہیں دی گئی، بجٹ میں خواتین اور نوجوانوں سے متعلق کچھ نہیں ہے اس کے علاوہ ہم اپنے دور ِ حکومت میں جی ڈی پی 6 فیصد چھوڑ کر گئے تھے لیکن اب ایک فیصد جی ڈی پی پر یہ حکومت بھنگڑے ڈال رہی ہے۔
بجٹ 2025-26: قومی ترقی کی بنیاد یا سیاسی مخالفت کا شکار؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی میں مالی سال 2025-26 کے بجٹ کی شق وار منظوری کا عمل مکمل ہو چکا ہے اور اس مرحلے پر ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ حکومت نے نہ صرف معاشی پالیسی میں تسلسل کا مظاہرہ کیا بلکہ بین الاقوامی اعتماد کو بھی بحال رکھنے کی کوشش کی ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے شور شرابہ اور مخالفت کوئی نئی بات نہیں، مگر اس بار جس انداز میں تنقید کی گئی، اس سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کچھ حلقے اب بھی زمینی حقائق سے نظریں چرا رہے ہیں۔
وزیر خزانہ نے ایک ایسا بجٹ پیش کیا ہے جو نہ صرف بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے بلکہ اندرونی استحکام کی بھی ضامن ہے۔ کسٹمز ایکٹ اور سیلز ٹیکس 1990 میں کی گئی ترامیم کا مقصد نہ صرف نظام کو ڈیجیٹلائز کرنا ہے بلکہ بدعنوانی اور ٹیکس چوری جیسے مسائل سے نمٹنا بھی ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق ایک خاص ترمیم جس پر بہت تنقید کی گئی تاجروں کی گرفتاری کا اختیار ایک کمیٹی کو دینا دراصل شفافیت کی جانب قدم ہے۔ ماضی میں ایف بی آر اور دیگر ادارے بغیر تفتیش کے گرفتاری جیسے اقدامات کرتے رہے، جس سے کاروباری طبقے میں بے اعتمادی پیدا ہوئی۔ نئی ترمیم میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی کمیٹی گرفتاری کی اجازت دے گی، جو کہ انصاف کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ بجٹ "آئی ایم ایف بجٹ” ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں کوئی بھی بجٹ بین الاقوامی مالیاتی نظام سے کٹ کر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کی معیشت گزشتہ کئی دہائیوں سے قرضوں کے جال میں پھنسی ہوئی ہے اور اصلاحات کے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ اس بجٹ میں جس انداز سے توانائی، ٹیکس اور مالیاتی نظم و نسق پر توجہ دی گئی ہے، وہ مستقبل کی معاشی بحالی کی طرف اشارہ ہے۔