ایران نے جوہری پروگرام دوبارہ شروع کیا تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے دوبارہ حملہ کریں گے، ٹرمپ
مجھے ایسا لگتا ہے کہ آئندہ سالوں میں ایران کے ساتھ کافی حد تک تعلقات قائم ہو سکتے ہیں، دی ہیگ میں پریس کانفرنس سے خطاب

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایران کی جوہری صلاحیتیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں اور اس کا ایٹمی پروگرام کئی دہائیوں پیچھے چلا گیا ہے تاہم اگر ایران نے جوہری پروگرام دوبارہ شروع کیا تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے دوبارہ حملہ کریں گے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان خیالات کا اظہار دی ہنگ میں جاری نیٹو سمٹ کے موقع پر کیا، انہوں نے کہا کہ ایران اوراسرائیل کے سیز فائر پر اچھے سے عمل ہو رہا ہے لہٰذا کچھ خلاف ورزیاں ہوئیں تھیں مگر میرے جنگ بندی کے کہنے پر اسرائیلی طیارے واپس آ گئے تھے۔
ٹرمپ کا کہا تھا کہ ایران میں فردو جوہری تنصیب تباہ کر دی اور وہاں اب تباہی کے سوا کچھ موجود نہیں، اہم نے ایران میں اہم کامیابیاں حاصل کیں ہیں جو سب کے لئے انتہائی اہم ہیں۔
امریکی صدر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران کو کسی صورت بھی دوبارہ جوہری صلاحیت اور یورینیئم کی افزودگی کی اجازت نہیں دی جا سکتی، ایران میں جوہری تنصیبات پر بی 2 بمبار طیاروں کے حملے کے بعد ایران کئی دہائیوں تک ایٹمی مواد نہیں بنا سکے گا ۔
ٹرمپ نے جنگ بندی کو سب کے لیے ایک بڑی کامیابی قراردیتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی بخوبی آگے بڑھ رہی ہے ۔
گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ اسرائیل پر فخر ہے جنہوں نے میرے کہنے پر کل طیارے واپس بلا لئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی میں اہم کردار، ٹرمپ ایک اور نوبل امن انعام کیلئے نامزد
غزہ میں جاری تنازع کے خاتمے کے لئے بھی اہم پیشرفت ہو رہی ہے، ٹرمپ
نیٹو سربراہ اجلاس کے موقع پر نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک رُٹے کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئےامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان غزہ میں جاری تنازع کے خاتمے کے لئے بھی اہم پیشرفت ہو رہی ہے اور سب کچھ ہماری جانب سے کئے گئے حملوں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایران پر امریکی حملوں سے مشرقِ وسطیٰ میں مثبت اثر ڈال سکتے ہیں، ایران پر حملہ غزہ سے یرغمالیوں کی رہائی میں بھی مدد گار ثابت ہو گا۔
ٹرمپ نے کہا کہ ایران کے لئے بھی جنگ بندی فتح ہے کہ ان کا ملک بچ گیا ۔ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں اور اہم ناگاساکی اور ہیروشیما کی سی مثال نہیں دینا چاہتے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ اگر ہم بم نہ گراتے تو اسرائیل – ایران جنگ ابھی بھی جاری ہوتی، ایران کو پتا تھا کہ ہم حملہ کرنے والے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جنگ بندی کے نفاذ کا اعلان، ایران اور اسرائیل کا ایک دوسرے پر خلاف ورزی کا الزام
امریکا کے ایران کے ساتھ مستقبل کے تعلقات؟
صحافی کی جانب سے ایران سے امریکا کے تعلقات سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ آئندہ سالوں میں ایران کے ساتھ کافی حد تک تعلقات قائم ہو سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے لوگ ذہین ہیں اور یہ دوبارہ اٹھ کے کھڑے ہو سکتے ہیں۔
بعد ازاں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے سمٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد ایران اب اٹیمی طاقت بننے سے بہت دور ہو چکا ہے، اس امریکی اقدام سے ایران کے ایٹمی پروگرام کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے اور اس حوالے سے مزید تفصیلات لے رہے ہیں۔
اس کے علاوہ سیکرٹری جنرل نیٹو نے سمٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ کو نیٹو ممالک کے دفاعی اخراجات بڑھانے پر آمادہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں جب ایران اور اسرائیل کی کشیدگی عروج پر تھی اور اس دوران امریکا نے اپنے بی 2 بمبار طیاروں سے ایران کے 3 مختلف مقامات پر جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا۔
طاقت کا اظہار یا پائیدار امن؟
تجریہ کاروں کا کہنا ہے کہ نیٹو سمٹ کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر دنیا کی توجہ ایران، اسرائیل اور غزہ کی تازہ ترین صورتحال پر مرکوز کر دی ہے۔
اس تمام صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکا کا یہ طرزعمل خطے میں دیرپا امن کی راہ ہموار کرے گا یا ایک نئے محاذ کی بنیاد رکھے گا؟ ٹرمپ کے سخت لہجے اور طاقت کے مظاہرے سے وقتی طور پر جنگ رک گئی ہے، مگر ایران جیسے خوددار ملک کے لیے یہ بات طویل مدتی پالیسی پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب عالمی تجزیہ کاروںکا کہنا ہے کہ خاص طور پر اسرائیل میں ٹرمپ کی پالیسی کی تعریف بھی ہو رہی ہے لیکن انسانی حقوق کے گروپس اور کچھ یورپی حلقے اسے خطے میں ایک نیا خطرناک توازن قرار دے رہے ہیں۔ ایران پر حملہ نہ صرف عالمی قوانین کی تشریح کو چیلنج کرتا ہے بلکہ امریکہ-ایران تعلقات میں نئی پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے۔