کیا پاکستانی بیلاروس میں اپنا یورپی خواب دیکھ سکتے ہیں؟
پاکستان بیلاروس میں کام کرنے کے لیے ہزاروں "ماہرین" بھیجنے کا منصوبہ بنا رہا ہے؟

کیا پاکستانی بیلاروس میں اپنا یورپی خواب دیکھ سکتے ہیں؟, بیلاروس کے صدر پاکستان سے 150,000 ‘ماہرین چاہتے ہیں۔ 250 ملین سے زیادہ آبادی والا ملک پاکستان کئی سالوں سے معاشی بحران کا شکار ہے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یونیورسٹی کے 30% سے زیادہ فارغ التحصیل بے روزگار ہیں اور یورپ کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہونے کے باوجود بیلاروس کو کارکنوں کی ضرورت ہے۔
اس کی آبادی 9 ملین سے کم ہے اور سکڑ رہی ہے، 2020 میں الیگزینڈر لوکاشینکو کی حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے بعد سے لاکھوں لوگ ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔
جب پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے منسک کا دورہ کیا تھا تب بیلاروسی حکام نے سب سے اعلان کیا کہ وہ اپریل 2025 میں پاکستانی کارکنوں کو مدعو کریں گے۔
شہباز شریف سے ملاقات کے بعد بیلاروسی رہنما لوکاشینکو نے پریس بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان100,000 سے زیادہ شاید 125,000 یا 150,000 ماہرین بھیجے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے دوست وزیراعظم پاکستان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے کہ مستقبل قریب میں مختلف شعبوں سے ماہرین بھیجے جائیں گے۔ "یہ وہ شعبے ہوں گے جن کے بارے میں ہم پوچھیں گے اور پاکستان میں حکام ایسے لوگوں کو منتخب کرنے میں ہماری مدد کریں گے۔”
اگست میں پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی نے اسلام آباد میں اپنے بیلاروسی ہم منصب سے ملاقات کے بعد ہزاروں پاکستانیوں کو بیلاروس میں کام کرنے کے لیے بھیجنے کے منصوبے کی تصدیق کی۔

پاکستانی پہلے ہی بیلاروس پہنچ رہے ہیں
بیلاروس میں پاکستانیوں کو ملازمت دینے کا پروگرام پہلے سے نافذ ہے، حالانکہ ابھی تک بیلا روس کے صدر لوکاشینکو کے اعلان کردہ پیمانے پر نہیں ہے۔ بیلاروس کو اپنے مینوفیکچرنگ، تعمیراتی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں کے لیے اہل کارکن ملنے کی امید ہے۔
پاکستانی وزارت برائے سمندر پار پاکستانیوں اور انسانی وسائل کی ترقی کے ایک اہلکار نے بتایاکہ مزدور کا انتخاب درخواست کرنے والے ملک کے طے کردہ معیار کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
مئی 2025 تک بیلاروس میں تقریباً 200 پاکستانی ورکرز ملازم تھے۔
اہلکار نے کہا کہ عام طور پر، جب کوئی بھی غیر ملکی حکومت مزدوری کی درخواست کرتی ہے، تو وزارت اس عمل کا انتظام کرتی ہے۔
بیلاروس کو غیر ملکی کارکنوں کے لیے کیوں مطلوبہ بناتا ہے؟
پاکستان کے لیے اپنے شہریوں کو بیرون ملک کام کے لیے بھیجنا ایک اسٹریٹجک فیصلہ ہے۔ برین ڈرین کے خطرے کے باوجود، اس سکیم سے نوجوانوں کی بے روزگاری میں کمی اور بیرون ملک سے ترسیلات زر کے حجم کو بڑھا کر جنوبی ایشیائی ملک کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
پاکستان میں اہلیت، ملازمتوں اور مقام کی بنیاد پر آمدنی وسیع پیمانے پر مختلف ہوتیں ہیں لیکن اوسط تنخواہ 300 ڈالر یا اس سے کم ہوتی ہے، یہاں بہت سارے کارکنان دوسرے ممالک جانے کے خواہشمند ہیں۔جبکہ بیلاروس کو یورپ کے غریب ترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے، لیکن اوسط تنخواہیں پاکستان کے مقابلے بہت زیادہ ہیں۔
جولائی میںبیلاروس میں اوسط تنخواہ 800 ڈالر فی مہینہ تھی جو پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔بلاشبہ ایک غیر ملکی کارکن کو رہائش کا کرایہ اور ممکنہ طور پر سائٹ پر تربیت کے لیے ادائیگی کرنے کی ضرورت ہوگی، لیکن پھر بھی وہ پاکستان میں اہل ملازمین کی اکثریت سے زیادہ کمائے گا۔
پاکستانیوں کی نظر میں بیلاروس میں کام مالی فائدہ ہے لیکن بیلاروس کا بنیادی مقصد مالی فائدہ نہیں بلکہ افرادی قوت اور ہنر مند افراد کی تلاش ہے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر عظیم خالد نے ڈی ڈبلیو کو بتایاکہ "پاکستان میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر، بہت سے افراد فطری طور پر بیرون ملک بہتر مواقع کی تلاش میں ہیں۔ ان کے لیے یورپی ملک میں کم ہنر مند اور ہنر مند دونوں طرح کے ورکرز کے ویزوں کی دستیابی ایک اہم قرعہ اندازی ہے۔”
انہوں نے مزید کہاکہ "پاکستان میں ایک وسیع پیمانے پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یورپ میں کام کرنے سے بہتر کمائی اور زندگی کا معیار بہتر ہو سکتا ہے، اس لیے توقع ہے کہ لوگ اس میں دلچسپی لیں گے۔”
کیا یورپ میں نوکریاں فروخت ہو رہی ہیں؟
تاہم اس دلچسپی کے ساتھ، یہ خدشات بھی ہیں کہ بیلاروس میں ملازمت کی آسامیاں اقربا پروری یا بدعنوانی کی بنیاد پر تقسیم کی جاتی ہیں۔ امیگریشن میں مہارت رکھنے والے پاکستانی وکلاء نے خبردار کیا ہے کہ بیرون ملک ملازمتیں اکثر لائسنس یافتہ لیبر ایجنٹوں کو "بیچی” جاتی ہیں۔
امیگریشن کے وکیل اسامہ ملک نے بتایاکہ "یہ ایجنٹ پھر کام کے ٹھیکے ایسے لوگوں کو بیچ دیتے ہیں جو وہاں سے جانے کے لیے بے چین ہیں۔”
رپورٹ کے مطابق یہ عمل بعض اوقات پاکستانی کارکنوں کو میزبان ملک کے متوقع معیار پر پورا نہ اترنے کا باعث بنتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ مثال کے طور پر ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جب پاکستانی میڈیکل گریجویٹس متعدد کوششوں کے باوجود دوسرے ممالک میں میڈیکل پریکٹس کے امتحانات پاس کرنے میں ناکام رہے۔”
تجزیہ کاروں اور پاکستانی ماہرین نے زور دیا کہ حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ مزدوری کے معاہدے فروخت نہ کیے جائیں اور صرف انتہائی قابل ماہرین کا انتخاب کیا جائے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ضروری ہو تو، کارکنوں کو بیلاروس بھیجنے سے پہلے اضافی تربیت فراہم کی جانی چاہیے۔ مزید برآں تمام منتخب امیدواروں کے ڈپلوموں اور تعلیمی اسناد کی اچھی طرح سے تصدیق ہونی چاہیے۔
پاکستانی کڑاہی سے بیلاروس کی آگ میں!
بیلاروس ایک مستقل سیاسی بحران کا شکار ملک ہے۔ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ میں اس کے ملوث ہونے اور صدر لوکاشینکو حکومت کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے اس پر پابندیاں عائد ہیں۔
پاکستانی کارکنوں کو وہاں بھیجے جانے کی خبر نے ہجرت کے ماہرین، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں میں تشویش پیدا کر دی ہے۔
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے خبردار کیا ہے کہ نقل مکانی کی لہر نہ صرف خود تارکین وطن بلکہ ان کے خاندانوں اور کمیونٹیز کے لیے بھی شدید مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔
ایف آئی اے کے ایک سینئر اہلکار نے کہاکہ ہمیں بیلاروس کی طرف بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے تناظر میں غیر قانونی نقل مکانی کے ایک اور بحران کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا کیش لیس معیشت کی جانب ایک اہم قدم
کیا پاکستانی ورکرز یورپی یونین میں بھاگ جائیں گے؟
دریں اثنا دوسروں نے خبردار کیا ہے کہ بیلاروس میں پاکستانی ورکرز، جو کہ یورپی یونین کا حصہ نہیں ہے، مغرب کی طرف بلاک اور امیر یورپی یونین ممالک کی طرف جانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں پولینڈ اور یورپی یونین کے دیگر ممالک نے بار بار منسک پر تارکین وطن کو بلاک کو غیر مستحکم کرنے کے لیے سرحد کے اس پار بھیجنے کا الزام لگایا ہے اور انھیں ایک آلے کے طور پر استعمال کیا ہے جسے مغرب روس اور بیلاروس کی ہائبرڈ جنگ کے طور پر بیان کرتا ہے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر عظیم خالد کا کہنا ہے کہ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ کچھ لوگ اسے یورپ کے دیگر مقامات کے لیے ایک قدم کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔اور میرے خیال میں یہ ایک اور وجہ ہوگی کہ پاکستانی نوجوان بیلاروس میں کام کرنے کے موقع کو بے تابی سے قبول کریں گے۔ اس لیے بیلاروس اور پاکستانی حکام دونوں کے لیے ایک اچھی ساختہ عمل کو نافذ کرنا بہت ضروری ہے۔ انہیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ منتخب افراد حقیقی طور پر کام کے جائز مواقع تلاش کر رہے ہیں، اس طرح پروگرام کے کسی بھی غلط استعمال کو کم سے کم کیا جائے گا۔
(ابھی تک ایسی کوئی ضمانتیں منظر عام پر نہیں آئی ہیں۔)
علاوہ ازیں لاہور سے تعلق رکھنے والا دیہاڑی دار چوہدری زرتاش سندھو بیرون ملک ملازمت کی تلاش میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ جب 32 سالہ نوجوان کو معلوم ہوا کہ بیلاروس میں کام کرنے کا امکان ہے، تو اس نے تعمیراتی کام کے لیے درخواست دینے کی امید میں کئی مزدور ایجنٹوں سے رابطہ کیا۔
انہوں نے اردو 24کو بتایاکہ میں بہتر آمدنی اور بہتر مستقبل کے لیے بیرون ملک جانا چاہتا ہوں۔
تاہم چوہدری زرتاش کا کہنا ہے کہ انہیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ عمل کیسے شروع کیا جائے اور اپنی ملازمت کی درخواست کہاں بھیجی جائے۔
اردو 24 نے ایک اور لاہور سے تعلق رکھنے والے نوجوان سید محمد باقر گیلانی سے بات چیت کی، وہ اس وقت قطر میں ایک نجی کمپنی میں ملازمت کر رہے ہیں اور پاکستان میں انہی حالات کا شکار تھے جو حالیہ دنوں میں کئی دوسرے نوجوانوں کو درپیش ہیں۔
30 سالہ باقر گیلانی نے بتایا کہ وطن میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے باعث وہ سخت پریشانی کا شکار تھے۔ اس دوران انہیں بیرون ملک روزگار کے مواقع کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے قطر میں ملازمت کے لیے کاغذات جمع کروائے۔
انہوں نے اردو 24 کو بتایا کہ قطر آ کر ان کی زندگی میں نمایاں تبدیلی آئی ہےتاہم ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اگر نوجوانوں کو مناسب روزگار ملے تو کوئی بھی ملک چھوڑنے پر مجبور نہ ہو۔
یہ مضمون اصل میں روسی زبان میں شائع ہوا تھا اور ڈی ڈبلیو میں بھی اس میں ترمیم کی گئی تھی۔
ایڈیٹر: میاں کامران جان