پاکستان
Trending

ڈیڈ لائن ختم: پاکستان میں افغان مہاجرین کی ملک بدری کا نیا مرحلہ شروع

حکومت کا مہاجرین کی رجسٹریشن کی مدت میں توسیع سے انکار، 14 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کو واپس ان کے ملک بھیجا جائے گا

اسلام آباد: پاکستان میں قیام کی مدت ختم ہونے کے بعد افغان مہاجرین کی جبری ملک بدری کا نیا مرحلہ شروع ہوگیا ہے۔ حکام نے پیر کے روز تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے مہاجرین کی رجسٹریشن کی مدت میں توسیع نہ دینے کے باعث ملک بدری کا سلسلہ جاری ہے۔ اس فیصلے سے 14 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کو واپس ان کے ملک بھیجا جائے گا۔ ان میں وہ افغانی بھی شامل ہیں جن کے پاس پروف آف رجسٹریشن کارڈ ہے جس کی مدت جون 2025 کے آخر تک ختم ہو چکی ہے۔

افغان مہاجرین کی قانونی حیثیت اور ڈیڈ لائن کی اہمیت

پاکستان میں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین کے لیے پروف آف رجسٹریشن (PoR) کارڈ ایک اہم قانونی دستاویز ہے، جو انہیں پاکستان میں رہنے اور کام کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ جون 2025 میں اس کارڈ کی مدت ختم ہونے کے بعد مہاجرین کی یہاں رہنے کی قانونی حیثیت ختم ہو گئی ہے ۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے اس کی توسیع سے انکار کر دیا گیا ہے۔

بہت سے افغان مہاجرین کا کہنا ہے کہ وہ یہاں کاروبار، تعلیم اور جائیداد کے معاملات نمٹانا چاہتے تھے مگر اب انہیں اچانک واپس جانا پڑ رہا ہے اور حکومت کی جانب سے مزید ایک سال کی توسیع کی امید لگائے بیٹھے تھے ان کو اب جبری ملک بدر کر دیا جائے گا۔

PoR کارڈ ہولڈرز اور افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والوں کی صورت حال

پروف آف رجسٹریشن کارڈ کے حامل افغان مہاجرین کے علاوہ 8 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کو بھی اب ملک بدری کا سامنا ہے۔ پنجاب، بلوچستان اور سندھ میں پولیس غیر دستاویزی افغانوں کو پکڑ کر وطن واپسی کے لیے تیار کر رہی ہے۔

حکومت کی جانب سے جاری کرد ہ نوٹیفکیشن کے مطابق جن کے پاس درست پاسپورٹ یا پاکستانی ویزہ نہیں ہے وہ اب امیگریشن قوانین کے تحت غیر قانونی تصور کیے جائیں گے۔

حکومتی نوٹیفکیشن اور پولیس کا آپریشن

31 جولائی کو جاری ہونے والے نوٹیفکیشن میں واضح کیا گیا ہے کہ ختم شدہ پی او آر کارڈ رکھنے والے تمام افغان مہاجرین کو پاکستان چھوڑنا ہوگا۔ حکام نے بتایا ہے کہ اس وقت کوئی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا آغاز نہیں ہوا، مگر پولیس مختلف علاقوں میں چھاپے مار کر ایسے افغان شہریوں کو حراست میں لے رہی ہے جو بغیر کاغذات کے رہائش پذیر ہیں۔ متعدد صوبوں سے ان کارروائیوں کی تصدیق ہوئی ہے۔

خیبرپختونخوا کے افغان مہاجرین کے کمشنر شکیل خان نے بھی اس آپریشن کی تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں غیر قانونی افغان مہاجرین کو باوقار طریقے سے وطن واپس بھیجا جا رہا ہے۔

افغان مہاجرین کی مشکلات اور ردعمل

پشاور میں پیدا ہونے والے 35 سالہ افغان شہری رحمت اللہ نے حکومت کے اس فیصلے پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہاکہ میرے پانچ بچے ہیں اور میں سب سے زیادہ اس بات کی فکر مند ہوں کہ وہ اپنی تعلیم سے محروم نہ ہوں۔ میں اور میرے بچے یہاں پیدا ہوئے ہیں اور اب ہمیں واپس جانا پڑ رہا ہے۔

یہ صورتحال ان لاکھوں افغانوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے جو گزشتہ چار دہائیوں سے پاکستان میں زندگی گزار رہے ہیں، جنہوں نے جنگ، کشیدگی اور معاشی بحران سے بچنے کے لیے پاکستان کا رخ کیا تھا۔

یاد رہے کہ 2023 میں ملک گیر سطح پر غیر دستاویزی مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا گیا تھا ۔

اقوام متحدہ کا ردعمل اور بین الاقوامی قانونی پہلو

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے پاکستانی حکومت کی اس کارروائی پر سخت تنقید کی ہے۔ یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے کہا کہ افغان مہاجرین کی جبری ملک بدری بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور یہ انسانی حقوق کے منافی عمل ہے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا ہے کہ زبردستی وطن واپسی کو روکا جائے اور مہاجرین کی واپسی کو رضاکارانہ، بتدریج اور باوقار طریقے سے یقینی بنایا جائے۔

آفریدی نے پاکستان کے مہاجرین کی میزبانی کے تاریخی کردار کو تسلیم کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر یہ جبری واپسی جاری رہی تو نہ صرف مہاجرین بلکہ پورے خطے کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔

دوسری جانب اب تک وزارت داخلہ کی جانب سے اس ملک بدری کی تازہ مہم کے حوالے سے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ افغان مہاجرین کی حالت زار اور ان کی حفاظت کے حوالے سے ملکی اور بین الاقوامی حلقوں میں تشویش پائی جا رہی ہے۔

پس منظر

واضح رہے کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کی آباد کاری کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ 1979 میں سوویت افغان جنگ کے دوران لاکھوں افغان مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیا۔ اس وقت سے لے کر اب تک پاکستان نے مختلف ادوار میں افغان مہاجرین کو مختلف قانونی حیثیت دی ہے، جن میں رجسٹریشن کے نظام، پی او آر کارڈز اور افغان سٹیزن کارڈز شامل ہیں۔

گذشتہ سال 2023 میں حکومت نے ملک گیر سطح پر غیر دستاویزی مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا، جس میں ہزاروں افراد کی گرفتاری اور ملک بدری شامل تھی۔ اس کے بعد حکومت نے ایک سال کی مدت دی تھی تاکہ رجسٹریشن کروائی جا سکے اور قانونی دستاویزات حاصل کی جا سکیں ، اس کے بعد حکومت نے مزید مدت کو بڑھانے سے انکار کر دیا ہے۔

Mian Kamran

Kamran Jan is a senior journalist at Urdu24.com specializing in Pakistan's political, economic news and others. With over 10 years of reporting experience, he brings accurate, fact-checked stories to readers daily. Visit my profile: About Me

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button