پاکستان
Trending

پاکستان کا تاریخی اقدام: بچوں کے کینسر کی مفت ادویات کا معاہدہ

ملک میں کینسر میں مبتلا سالانہ 8000 بچوں کو مفت معیاری اور مؤثر ادویات فراہم کی جائیں گی

اسلام آباد: پاکستان نے ایک تاریخی اقدام اٹھاتے ہوئے ڈبلیو ایچ او کے ساتھ بچوں کے کینسر کی مفت ادویات کا معاہدہ طے کر لیا۔ پاکستان نے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ساتھ ایک اہم معاہدے پر دستخط کر دیئے، جس کے تحت ملک میں کینسر میں مبتلا سالانہ 8000 بچوں کو مفت معیاری اور مؤثر ادویات فراہم کی جائیں گی۔

یہ معاہدہ ڈبلیو ایچ او کے چائلڈ ہڈ کینسر میڈیسنز تک رسائی کے لیے عالمی پلیٹ فارم کے تحت کیا گیا ہے۔

اسلام آباد میں ہونے والی تقریب میں وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال اور پاکستان میں ڈبلیو ایچ او کے نمائندے ڈاکٹر ڈیپینگ لوو نے معاہدے پر باضابطہ دستخط کیے۔ یہ معاہدہ 31 دسمبر 2027 تک نافذ العمل رہے گا اور دونوں فریقین کے تحریری معاہدے سے اس میں توسیع بھی ممکن ہے۔

بچوں کی بقا کی شرح میں اضافہ: 30 سے 60 فیصد کا ہدف

ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس معاہدے کا بنیادی مقصد پاکستان میں کینسر کے مریض بچوں کی زندگی بچانے کے امکانات کو بہتربنانا ہے۔ اس وقت صرف 30 فیصد مریض بچوں کو ہی اس بیماری سے بچایا جاتا ہے ، اس معاہدے کے تحت 2030 تک شرح کو 60 فیصد تک پہنچایا جائے گا۔

بیان میں واضح کیا گیا کہ علاج تک محدود رسائی ان بچوں کی کم بقا کی شرح کی بڑی وجہ ان کے خاندان کی کم آمدنی ہے کیونکہ وہ لوگ یہ اخراجات کو برداشت نہیں کر سکتے،جب کہ اعلیٰ آمدنی والے ممالک میں بچوں کی بقا کی شرح 80 فیصد ہے۔

ڈبلیو ایچ او کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیاکہ کینسر سے متاثرہ کوئی بھی بچہ محض ادویات یا علاج تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے نہیں مرنا چاہئے۔

پاکستان کا تاریخی اقدام: بچوں کے کینسر کی مفت ادویات کا معاہدہ
اسلام آباد: پاکستان کے وزیر صحت مصطفیٰ کمال اور ڈبلیو ایچ او کے نمائندے ڈاکٹر ڈیپینگ لوو معاہدے پر دستخط کررہے ہیں

پاکستان عالمی پلیٹ فارم میں شامل ہونے والا دوسرا ملک

پاکستان مشرقی بحیرہ روم کے خطے کا دوسرا ملک ہے جس نے ’گلوبل پلیٹ فارم‘ میں شمولیت اختیار کی۔ اس پلیٹ فارم کی بنیاد 2021 میں ڈبلیو ایچ او اور سینٹ جوڈ چلڈرن ریسرچ ہسپتال نے رکھی تھی تاکہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کو بچوں کے کینسر کی تصدیق شدہ اور معیاری ادویات کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔

جاری کردہ اعلامیے کے مطابق اس معاہدے کے تحت ادویات کی خریداری اور پاکستان تک رسائی اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسیف) کے ذریعے ممکن بنائی جائے گی، یہ ادارہ پوری ترسیلی چین کا ذمہ دار ہو گا۔

وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے تقریب سے خطاب میں اس معاہدے کو پاکستان کے لیے ایک تاریخی دن قرار دیتے ہوئے کہاکہ آج ہم ایک ایسا سنگ میل عبور کر لیا ہے جہاںکینسر جیسے مہلک مرض سے لڑنے والے ہمارے بچوں کو مفت ادویات کی فراہمی ممکن ہو گی۔

انہوں نے مزید کہاکہ ہم ڈبلیو ایچ او، یونیسیف، گلوبل پلیٹ فارم اور تمام شراکت داروں کے بے حد شکر گزار ہیں۔

بچپن کے کینسر کی عالمی صورتحال

ڈبلیو ایچ او کے اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 400,000 بچے کینسر کا شکار ہوتے ہیں، جن میں سے تقریباً 90 فیصد بچے LMICs میں رہتے ہیں، جہاں بقا کی شرح 30 فیصد سے بھی کم ہے۔

دریں اثناء کینسر کے خلاف موثر اقدامات کے لئے ادویات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ڈبلیو ایچ او پاکستان کی وزارت صحت اور صوبائی حکام کو تکنیکی رہنمائی اور آپریشنل سپورٹ بھی فراہم کرے گا۔

شرح پیدائش اور بیماریوں سے متعلق چیلنجز

تقریب کے دوران وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے صحت کے شعبے کو درپیش دیگر اہم چیلنجز پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گزشتہ چند دہائیوں کے دوران شرح پیدائش میں کمی آئی ہے، 1994 میں فی عورت چھ زندہ پیدائش سے 2024 میں 3.6 تک آ چکی ہے۔ اقوام متحدہ کی عالمی فرٹیلیٹی رپورٹ 2024 کے مطابق یہ 2005 سے اب تک 3.6 پر جمود کا شکار ہے، جو پالیسی کے لیے باعث تشویش ہے۔

انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ خطے کے دیگر ممالک جیسے بنگلہ دیش، ایران اور بھارت نے اپنی شرح پیدائش میں نمایاں کمی کی ہے، جس کے باعث وہ ترقی کی جانب گامزن ہیں۔

زچگی اور نوزائیدہ بچوں کی اموات

وزیر صحت نے بتایا کہ ہر سال حمل کی پیچیدگیوں کے باعث 11,000 خواتین جان کی بازی ہار جاتی ہیں، تاہم ڈبلیو ایچ او کے مطابق یہ تعداد 9,800 ہے۔

ادارے نے اپریل میں جاری اپنے بیان میں کہاتھا کہ ہر روز پاکستان میں ایک ماہ سے کم عمر کے 675 بچے اور 27 مائیں ایسی پیچیدگیوں سے وفات پا جاتے ہیں جن سے بچا جا سکتا ہے۔ اس کی سالانہ تعداد 9,800 ماؤں اور 246,300 نوزائیدہ بچوں کی اموات تک پہنچتی ہے۔

مصطفیٰ کمال نے ایک اہم مسئلے کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ ملک میں 43 فیصد بچے سٹنٹڈ پیدا ہوتے ہیں، یعنی ان کی جسمانی اور ذہنی نشوونما مکمل نہیں ہوتی۔

پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں اور سیوریج کا بحران

وزیر صحت نے کہا کہ پاکستان میں 68 فیصد بیماریاں آلودہ پانی کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہیں اور اگر صاف پانی دستیاب ہو تو ہسپتالوں کا 68 فیصد بوجھ ختم ہو سکتا ہے۔

انہوں نے سیوریج سسٹم کی ابتر صورتحال پر بھی بات کی اور کہاکہ سیوریج براہ راست کسی نالے، ندی یا دریا میں جا رہا ہے، جہاں سے پانی بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے عوام تک پہنچتا ہے۔ گلگت بلتستان سے لے کر کراچی تک لوگ دوسرے لوگوں کا سیوریج پی رہے ہیں۔

وزیر صحت نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ کئی خاندان بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کی اجازت نہیں دیتے، حالانکہ حکومت کی جانب سے ٹیمیں گھروں تک ویکسین فراہم کرنے آتی ہیں۔ یہ صرف حکومت کی نہیں پوری قومی کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی ویکسینیشن مکمل کروائیں۔

یہ بھی پڑھیں: دنیا بھر میں 1 کروڑ 40 لاکھ بچے ویکسین سے محروم، ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ جاری

تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ پاکستان کا یہ اقدام ڈبلیو ایچ او کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے بچوں کو کینسر کے علاج کی مفت ادویات فراہم کرنا یقیناً ایک امید افزا قدم ہے، تاہم وزیر صحت کی جانب سے بیان کیے گئے دیگر مسائل جیسے بلند شرح پیدائش، آلودہ پانی، ناقص سیوریج سسٹم اور ویکسینیشن کے خلاف مزاحمت اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ صحت کے شعبے میں چیلنجز ابھی ختم نہیں ہوئے۔

Mian Kamran

Kamran Jan is a senior journalist at Urdu24.com specializing in Pakistan's political, economic news and others. With over 10 years of reporting experience, he brings accurate, fact-checked stories to readers daily. Visit my profile: About Me

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button