بین الاقوامی
Trending

غزہ میں فاقہ کشی سے اموات، عالمی برادری کی خاموشی تشویشناک

غزہ میں جاری انسانی بحران مزید سنگین ہوتا جا رہا ہے، روز بروز بڑھتی ہوئی فاقہ کشی نے شہریوں زندگیوں کو شدید متاثر کیا ہے

غزہ میں جاری انسانی بحران مزید سنگین ہوتا جا رہا ہے، روز بروز بڑھتی ہوئی فاقہ کشی نے شہریوں زندگیوں کو شدید متاثر کیا ہے۔عالمی برادری کی خاموشی اور تاخیر، اس انسانی المیے میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔

غزہ میں بھوک کے باعث کئی فلسطینیوں کی اموات رپورٹ ہوئیں لیکن عالمی رہنماؤں کا اس بحران پر خاموشی اختیار تشویشناک ہے۔

غزہ میں بھوک کا بحران دن بدن شدید ہوتا جا رہا ہے۔ امتحان کے دوران بھوکے پیٹ گزارنا، ہر دن خوراک کی تلاش میں چکر لگانا اور پھر بھی خالی ہاتھ واپس آنا، غزہ کے عوام کا معمول بن چکا ہے۔ بھوک نے غزہ کے لوگوں کو جسمانی اور ذہنی طور پر تباہ کر دیا ہے۔

اب وہ وقت آ چکا ہے جب "مجھے بھوک لگی ہے” کے الفاظ ہر روز ایک نئی حقیقت بنتے جا رہے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب انسانیت سوالات کا سامنا کرتی ہے۔ وہ لوگ جو کبھی کھانے کی اہمیت کو نظرانداز کرتے تھے، اب بھوک کی شدت کا سامنا کر رہے ہیں۔

غزہ میں فاقہ کشی سے اموات، عالمی برادری کی خاموشی تشویشناک
غزہ میں فلسطینی کڑکتی دھوپ میں کھانا لینے کے لئے قطار میں کھڑے انتظار کر رہے ہیں: فوٹو رائٹرز

غزہ میں موجود عالمی نشریاتی اداروں نے بھی اسرائیلی محاصرے کے باعث پیدا ہونے والی بھوک اور قحط پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب وہاں صحافی گولیوں سے نہیں بلکہ بھوک سے مر رہے ہیں۔

غذائی اشیاء کی قیمتیں اور اقتصادی بحران

غزہ میں خوراک کی قیمتوں کا بڑھنا صرف ایک اقتصادی مسئلہ نہیں رہا بلکہ ایک انسانی بحران بھی بن چکا ہے۔ 18 جولائی 2023 کو غزہ میں بنیادی غذائی اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ 1 کلو آٹا کی قیمت 200 شیکل (60 ڈالر) تک پہنچ گئی جبکہ 1 کلو چینی 400 شیکل (120 ڈالر) کی ہو گئی۔ اس قیمتوں کا بڑھنا صرف قیمت کا بڑھنا ہی نہیں بلکہ سزاؤں کی علامت بھی بن چکی ہے۔

مہنگائی میں اضافے نے غزہ کے عوام کو مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ خوراک تک رسائی مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ کرنسی کا بحران بھی عروج پر ہے۔ دکاندار پرانے اور پھٹے ہوئے نوٹوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں اور اگر وہ انہیں قبول کرتے ہیں تو 45 فیصد کمیشن وصول کرتے ہیں۔

بھوک اور ذہنی صحت پر اثرات

غزہ میں بھوک فلسطینیوں کو جسمانی اور ذہنی دونوں طور پر تباہ کر رہی ہے۔ لوگ روزانہ کھانے کے بارے میں سوچتے ہیں لیکن تعلیم یا مستقبل کے بارے میں ان کے پاس سوچنے کے لئے کوئی جگہ ہی نہیں ۔ خوراک کی تلاش اور اس کی قیمتوں کو پورا کرنا ان کے واحد مقصد بن چکا ہے۔

یہ حالت ایسی ہے کہ اب ان کے دلوں میں صرف ایک سوال ہے: "ہم آج کیا کھائیں گے؟” یہ سوال ایک بحران بن چکا ہے جو غزہ کے ہر شہری کے ذہن میں گردش کرتا ہے۔

 

غزہ میں فاقہ کشی سے اموات، عالمی برادری کی خاموشی تشویشناک
غزہ میں فاقہ کشی سے اموات، عالمی برادری کی خاموشی تشویشناک

غزہ میں غذائی بحران: ایک نسل کشی کی علامت

عالمی ادارے یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق جون 2023 میں 6000 سے زائد بچے غذائی قلت کی وجہ سے ہسپتالوں میں داخل ہوئے جبکہ 930,000 بچے اس وقت تباہ کن بھوک کا سامنا کر رہے ہیں اور 650,000 بچوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔ہر روز بچوں کی زندگیوں کا لاحق خطرات کے باعث نیا اعدادو شمار سامنے آتے ہیں۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق بھوک اور غذائی قلت کی وجہ سے 115 افراد شہید ہو چکے ہیں، جن میں 81 بچے شامل ہیں۔

اونرا اور دیگر عالمی اداروں نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اب تک بھوک کی شدت سے شہید ہونےوالوں کی تعداد 100 سے زائد ہو چکی ہے۔

بھوک کے علاوہ کون سا خطرہ ہے؟

غزہ میں فلسطینی شہریوں کے لئے جہاں بھوک ، غذائی قلت اور قحط کا سامنا ہے وہاں اسرائیلی حملوں کا خطرہ بھی ہر وقت منڈلاتارہتا ہے۔ عالمی و دیگر سماجی ادارے جہاں خوراک کی تقسیم کرتے ہیں وہاں اسرائیلی فوج بمباری سے ان فلسطینیوں کو نشانہ بناتی ہے۔

اقوام متحدہ کی کی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب تک 1 ہزار سے زائد فلسطینی اسرائیلی فوج کی فائرنگ یا خوراک کی تلاش میں شہید ہوئےہیں۔غزہ ہیومنٹرینز فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق زخمیوں کی تعداد 4ہزار 8 سو91 افراد سے تجاوز کر چکی ہے۔

دنیا کا ردعمل اور غزہ کی حالت

دنیا خاموشی سے غزہ میں جاری انسانی بحران کو دیکھ رہی ہے۔ فلسطینیوں کی طرف سے عرب اور اسلامی دنیا کے لیے ایک پراثر پیغام گردش کر رہا ہے: "کہاں ہے انسانیت؟”

اس پیغام میں کہا گیا کہ جو لوگ اقتدار میں ہیں وہ پُرسکون زندگی گزار رہے ہیں، ان کے بچے ہنستے اور کھیلتے ہیں۔ ادھر، غزہ کے شہری بھوک اور بے گھری کا سامنا کر رہے ہیں۔ کئی لوگ سونے کے لیے جگہ ڈھونڈتے ہیں، مگر وہ راتیں اُن کے لیے مزید آزمائش بن چکی ہیں۔

غزہ کے عوام کی آواز اس وقت عالمی رہنماؤں تک نہیں پہنچ رہی یا شاید وہ سننا نہیں چاہتے۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر جنگ، بھوک اور دیگر مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، لیکن عالمی برادری میں کسی کی نظر ان پر نہیں ہے۔

بھوک کے ساتھ زندگی گزارنا: غزہ کے لوگ کس طرح زندہ ہیں؟

غزہ کے لوگ اپنی زندگیوں کے معمولات میں بدلاؤ کی کوشش کر رہے ہیں، مگر بھوک ان کے جسم اور دماغ پر مکمل قبضہ کر چکی ہے۔ اس صورتحال میں انہوں نے کھانے کی ہر قسم کی احتیاط اور احتیاطی تدابیر کو ترک کر دیا ہے۔ وہ اپنی روزمرہ زندگی میں گزارے گئے دنوں کا حساب نہیں رکھتے؛ بس اتنا کہ وہ زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔

غزہ میں نسل کشی: ایک انسانیت کا بحران

غزہ میں بھوک اور غذائی قلت نے ایک ایسی نسل کشی کو جنم دیا ہے جس کی شدت کا اندازہ صرف وہی لگا سکتے ہیں جو وہاں کے حالات میں جی رہے ہیں۔ یہ قدرتی آفات نہیں بلکہ ایک انسان کی جانب سے پیدا کی گئی تباہی ہے۔

غزہ کے بچے جو کبھی کھیلتے تھے، اب بھوک سے روتے ہیں۔ کھلونوں کی جگہ وہ اپنے جسموں میں کمی محسوس کرتے ہیں اور پھر بھی وہ زندہ رہنے کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔

عالمی برادری کی خاموشی کے باوجودمستقبل کی امید؟

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فلسطینی عوام اسرائیل کے ساتھ جنگ اور بھوک کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کی خاموشی سے بھی لڑ رہے ہیں۔غزہ کو ترس یا ہمدردی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ وقت خاموشی کا نہیں بلکہ آواز اٹھانے کا ہے۔ اگر دنیا نے فوری طور پر اس بحران پر توجہ نہ دی، تو غزہ میں ہونے والی تباہی انسانیت کے لئے ایک بدترین سبق بنے گی۔

مبصرین کے مطابق غزہ میں بھوک کا بحران اور عالمی برادری کی خاموشی دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ایک طرف غزہ کے عوام اپنی زندگیوں کی جنگ لڑ رہے ہیں اور دوسری طرف دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اس وقت دنیا کے ہر انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائے اور اس بحران کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرے۔

Mian Kamran

Kamran Jan is a senior journalist at Urdu24.com specializing in Pakistan's political, economic news and others. With over 10 years of reporting experience, he brings accurate, fact-checked stories to readers daily. Visit my profile: About Me

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button