ٹرمپ کے دستخط کے لیے غیر ملکی امداد بند کرنے کا بل وائٹ ہاؤس روانہ
امریکی ایوان نمائندگان نے بھی نشریاتی اداروں اور غیر ملکی امداد میں 9 ارب ڈالر کی کٹوتی کا بل کثرت رائے سے منظور کر لیا

واشنگٹن: امریکی ایوان نمائندگان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر ملکی امداد اور عوامی نشریات میں تقریباً 9 ارب ڈالر کی کٹوتی کی حتمی منظوری دے دی ہے۔
ایوان کی منظوری کے بعد یہ بل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دستخط کے لئے وائٹ ہاؤس بھیج دیا گیا ہے۔
ریپبلکن پارٹی اور صدر ٹرمپ نے اس بل کو ایک بڑی کامیابی قرار دے دیا ۔
ایوان نے بل کو 216-213 ووٹوں سے منظور کیا۔ اس قانون سازی کے تحت امریکی عوامی نشریاتی ادارے کارپوریشن فار پبلک براڈکاسٹنگ (CPB) کو دی جانے والی آئندہ دو سالوں کی پوری رقم 1.1 ارب ڈالر منسوخ کر دی جائے گی۔ یہ ادارہ امریکا بھر میں 1500 سے زائد مقامی ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشنز کو فنڈنگ فراہم کرتا ہے جن میں نیشنل پبلک ریڈیو (NPR) اور پبلک براڈکاسٹنگ سروس (PBS) شامل ہیں۔
ریپبلکنز کا کہنا ہے کہ عوامی نشریات کا نظام ٹیکس دہندگان کے پیسوں کا ضیاع ہے اور سیاسی طور پر جانبدار بھی ہے۔ اسپیکر ہاؤس مائیک جانسن نے واضح طور پر کہا کہ امریکا کو سنجیدہ فیصلے لینے کی ضرورت ہے اور یہ فیصلہ اسی سمت کا ایک پہلا قدم ہے۔
ڈیموکریٹک اور چند ریپبلکن سینیٹرز نے خبردار کیا ہے کہ یہ فیصلہ خاص طور پر دیہی اور دور دراز علاقوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ یہ عوامی نشریاتی ادارے نہ صرف خبریں بلکہ قدرتی آفات کے موقع پر بروقت وارننگز بھی فراہم کرتے ہیں۔
الاسکا سے تعلق رکھنے والی ریپبلکن سینیٹر لیزا مرکووسکی نے کہا کہ یہ اسٹیشنز مقامی کمیونٹی کے لیے صرف خبروں کا ذریعہ نہیں بلکہ زندگی بچانے والے وارننگ سسٹم بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان اسٹیشنز کے ذریعے ہی زلزلہ، سونامی، لینڈ سلائیڈ یا آتش فشاں جیسی قدرتی آفات کی اطلاعات عوام تک پہنچائی جاتی ہیں۔
واضح رہے کہ اسی ہفتے جب سینیٹ میں یہ بل زیر بحث تھا، الاسکا میں 7.3 شدت کا زلزلہ آیا اور مقامی عوامی نشریاتی اداروں نے سونامی وارننگ جاری کر کے شہریوں کو بروقت محفوظ مقامات پر جانے کی ہدایت دی۔
یہ بھی پڑھیں: 9 ارب ڈالر کی غیر ملکی امداد اور میڈیا فنڈنگ ختم، امریکی سینیٹ کی منظوری
غیر ملکی امداد کے منصوبے شدید متاثر
اس بل کی منظوری کے بعد امریکا کی غیر ملکی امداد کے بیشتر منصوبے بھی متاثر ہوں گے۔ ان منصوبوں میں وہ تمام پروگرام شامل ہیں جن کا مقصد دنیا بھر کے پناہ گزینوں، قدرتی آفات کے متاثرین اور ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو سہارا دینا تھا۔
ریپبلکن پارٹی کا مؤقف ہے کہ امریکی ٹیکس دہندگان کا پیسہ دنیا بھر کے مسائل کے بجائے امریکا کے اندرونی مسائل پر خرچ ہونا چاہیے۔ وائٹ ہاؤس نے اس کٹوتی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ دوسرے ممالک کو اپنے مسائل خود حل کرنے کی ترغیب دے گا اور امریکی مفادات کا بہتر تحفظ کرے گا۔
ڈیموکریٹس کا شدید ردعمل
ڈیموکریٹس نے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی اور کہا کہ اس فیصلے سے امریکا کا عالمی اثر کمزور ہو سکتا ہے۔ ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ امریکا کی عالمی قیادت ہمیشہ غیر ملکی امداد کے منصوبوں سے جُڑی رہی ہے۔ اب اگر امریکا خود کو پیچھے ہٹائے گا تو چین جیسے ممالک کے لئے راہ ہموار ہو جائے گی۔
ایوان میں ڈیموکریٹک رہنما حکیم جیفریز نے کہا کہ یہ بل امریکا کے مفاد سے زیادہ چین کے مفاد کا بل محسوس ہوتا ہے کیونکہ اس فیصلے سے دنیا بھر میں ہماری کمزوری ظاہر ہو گی۔
سینیٹ میں بھی اختلاف
یاد رہے کہ گزشتہ روز سینیٹ میں بھی اس بل پر دو ریپبلکن سینیٹرز، لیزا مرکووسکی اور سوسن کولنز نے ڈیموکریٹس کا ساتھ دے کر بل کی مخالفت کی، تاہم مجموعی طور پر یہ بل 51 کے مقابلے میں 48 ووٹوں سے منظور کر لیا گیا۔
ریپبلکن پارٹی کے چند دیگر اراکین نے بھی اس بل کے عمل پر تحفظات کا اظہار کیاتھا۔ سینیٹر راجر ویکر نے اگرچہ اس بل کے حق میں ووٹ دیا لیکن انہوں نے کہا کہ وائٹ ہاؤس اس حوالے سے وضاحت فراہم کرنے میں ناکام رہا کہ اصل میں کن منصوبوں سے فنڈنگ روکی جا رہی ہے۔
ریپبلکن قیادت کو پارٹی کے اندر بھی سب سے زیادہ پی پی ایف اے آر پروگرام پر دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ پروگرام ایچ آئی وی اور ایڈز کے خلاف امریکا کا سب سے بڑا بین الاقوامی منصوبہ ہے۔
یاد رہے کہ ایڈز اور ایچ آئی وی کا منصوبہ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں شروع کیا گیا تھا۔
ابتدائی طور پر ایوان نمائندگا ن میں پیش کئے جانے والے بل میں اس پروگرام کی فنڈنگ مکمل طور پر بند کی جا رہی تھی تاہم ریپبلکن رہنماؤں کے دباؤ کی وجہ سے اس میں ترمیم کی گئی جس کے بعد صرف چار سو ملین ڈالر کی کٹوتی کی گئی۔
وائٹ ہاؤس کا عندیہ، مزید کٹوتیاں جلد متوقع
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ نئی پالیسی کا آغاز ہے اور جلد ہی ایک اور ایسا بل کانگریس میں پیش کیا جائے گا تاکہ مزید غیر ضروری اخراجات کو کنٹرول کیا جا سکے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدام معیشت کو قابو میں رکھنے کے لیے اہم ہے۔
امریکا کی سالمیت اور عالمی حیثیت کو خطرہ لاحق
ڈیموکریٹس کا دعویٰ ہے کہ یہ فیصلے امریکا کی سلامتی اور وقار کے لیے خطرہ ہیں۔ امریکی امدادی منصوبے ہمیشہ سے اس کی عالمی قیادت اور ساکھ کا اہم حصہ رہے ہیں۔ اگر امریکا اپنی عالمی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹے گا تو دنیا بھر میں اس کا اثرو رسوخ کم ہو جائے گا۔
مالیاتی استحکام یا سیاسی تنازع؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ مستقبل کی امریکی مالیاتی پالیسی کا رخ واضح کرتا ہے۔ صدر ٹرمپ اور ریپبلکن قیادت آئندہ بھی اسی طرز پر اخراجات میں کٹوتیوں کے منصوبے سامنے لائیں گے۔
ذرائع کے مطابق وائٹ ہاؤس مستقبل میں مزید ایسی کٹوتیاں اور پروگرام بند کرنے کے حوالے سے پالیسیاں دے سکتا ہے، جس سے آنے والے مہینوں میں غیر ملکی پالیسی اور سرکاری اداروں کی فنڈنگ متاثر ہو سکتی ہے۔