9 ارب ڈالر کی غیر ملکی امداد اور میڈیا فنڈنگ ختم، امریکی سینیٹ کی منظوری
ریپبلکن اختلافات کے باوجود بل منظور، چھوٹے براڈکاسٹرز، تعلیمی ادارے اور عالمی امدادی پروگرام شدید متاثر ہونے کا خدشہ

واشنگٹن: امریکی سینیٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی درخواست منظور کرلی، جس کے تحت غیر ملکی امداد اور عوامی نشریاتی اداروں کے لیے مختص 9 ارب ڈالر کی فنڈنگ منسوخ کر دی جائے گی۔ اس فیصلے کو ریپبلکن پارٹی کے کچھ سینیٹرز کے اختلافات کے باوجود کی کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔
جمعرات کی صبح ہونے والی ووٹنگ میں بل کو 51 کے مقابلے میں 48 ووٹوں سے منظور کیا گیا۔ دو ریپبلکن سینیٹرز سوسن کولنز (ریاست مین) اور لیزا مرکووسکی (ریاست الاسکا) نے بل کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ ان دونوں سینیٹرز نے کہا کہ وہ اپنی جماعت کی اس پالیسی سے اختلاف رکھتی ہیں۔
سینیٹرز نے اپنی تقاریر کے دوران کہا کہ کانگریس کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ طے کرے کہ ملک کا پیسہ کہاں خرچ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام امریکی آئین کے خلاف ہے، اخراجات پر کنٹرول صدر یا ایگزیکٹو برانچ کو نہیں بلکہ کانگریس کو دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ اس فیصلے کے تحت منسوخ کی جانے والی 9 ارب ڈالر کی فنڈنگ کا بڑا حصہ غیر ملکی امدادی پروگرامز کے لیے مختص تھا۔
تقریباً 8 ارب ڈالر ترقی پذیر ممالک کو دی جانے والی امداد کے لیے مختص تھے جن میں تعلیم، صحت، زراعت، پینے کے صاف پانی اور انسانی حقوق کے پروگرام شامل تھے۔
باقی 1.1 ارب ڈالر کارپوریشن فار پبلک براڈکاسٹنگ (CPB) کے لیے تھے جو کہ امریکہ کے مشہور اداروں نیشنل پبلک ریڈیو (NPR) اور پی بی ایس (PBS) کو براہِ راست فنڈز فراہم کرتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ فنڈز نہ صرف ان قومی اداروں بلکہ ملک بھر میں چھوٹے چھوٹے مقامی ریڈیو اور ٹی وی چینلز کے لیے بھی اہمیت رکھتے ہیں، جن کا زیادہ تر انحصار انہی فنڈز پر ہوتا ہے۔
چھوٹے نشریاتی ادارے سب سے زیادہ متاثر
امریکہ میں ہزاروں چھوٹے ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشنز ایسے ہیں جن کی کل آمدنی کا 50 فیصد یا اس سے زیادہ حصہ CPB سے حاصل ہونے والے فنڈز پر مشتمل ہوتا ہے۔
ان اداروں کے نمائندوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ فنڈز بند ہوگئے تو ان کے لیے اپنے آپریشنز جاری رکھنا تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔
ساؤتھ ڈکوٹا پبلک براڈکاسٹنگ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر جولی اوورگارڈ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس مزید کٹوتی کی کوئی گنجائش نہیں، اگر فنڈنگ بند ہوئی تو ہمیں اپنے مقامی پروگرامنگ کو ختم کرنا پڑے گا۔ یہ صرف ہمارے لیے نہیں، پورے ملک کے درجنوں ایسے براڈکاسٹرز کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہوگا جو عوام کے لیے تعلیمی، ثقافتی اور معلوماتی پروگرام پیش کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم قومی سطح پر چلنے والے پروگرامز سے اپنی مرضی کے مطابق انتخاب نہیں کر سکتے، ہمیں پورا پیکیجخریدنا ہوتا ہے اور جب بجٹ کم ہو گا تو ہمیں مقامی سطح پر خود تیار کیے گئے پروگرامز کو بند کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کی خارجہ پالیسی بحران کا شکار؟ 1300 ملازمین فارغ
ریپبلکن قیادت کی وضاحت
ریپبلکن قیادت کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ سرکاری اخراجات کو کم کرنے اور غیر ضروری فنڈنگ ختم کرنے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔
سینیٹ میں اکثریتی رہنما سینیٹر جان تھون (ریاست جنوبی ڈکوٹا) نے کہاکہ میں انتظامیہ کی جانب سے فضول خرچی کی نشاندہی کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات کو سراہتا ہوں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سینیٹ بھی بجٹ کے اس فضول حصے کو ختم کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ ریپبلکن قیادت چاہتی ہے کہ مستقبل میں امریکی عوام پر بوجھ بننے والے تمام غیر ضروری اخراجات ختم کئے جائیں۔
واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پہلے بھی متعدد بار کانگریس کی منظوری سے ملنے والی امداد کو روکنے کی کوشش کر چکی ہے۔ اس بار انتظامیہ نے ایک باقاعدہ قانونی عمل (ریزیژن بل) کے ذریعے یہ قدم اٹھایا، جو ماضی میں کبھی کبھار ہی کامیاب ہوا ہے۔ آخری بار ایسا 1999 میں ہوا تھا۔
وائٹ ہاؤس بجٹ آفس کے ڈائریکٹر رسل ووٹ اس پوری مہم کی قیادت کر رہے تھے جس کا مقصد وفاقی حکومت کے سائز کو محدود کرنا اور اخراجات پر ایگزیکٹو برانچ کا کنٹرول بڑھانا تھا۔
ریپبلکن کے اندر بھی یہ اقدام متنازعہ رہا، 10 ریپبلکن سینیٹرز نے وائٹ ہاؤس کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ وہ تعلیمی پروگرامز کے لیے مختص تقریباً 7 ارب ڈالر کی فنڈنگ روکنے کا فیصلہ واپس لے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس فنڈنگ کی منسوخی صدر ٹرمپ کی اس پالیسی کے خلاف ہے جس میں K-12 تعلیم کو ریاستوں کی سطح پر مضبوط کرنے کی بات کی گئی تھی۔
ڈیموکریٹس کا سخت ردعمل
دوسری جانب ڈیموکریٹس نے اس فیصلے کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ریپبلکنز نے اپنے ٹیکس قوانین کے ذریعے پہلے ہی 4 کھرب ڈالر کا بجٹ خسارہ پیدا کیا ہے اور اب معمولی رقم سے بچت کے نام پر کانگریس کے آئینی اختیارات سے دستبردار ہو رہے ہیں۔
ڈیموکریٹک سینیٹر پیٹی مرےنے کہاکہ ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا کہ دو طرفہ سرمایہ کاری کو اس طرح ایک متعصبانہ پیکیج کے ذریعے کم کیا گیا ہو۔ اس عمل سے مستقبل کے بجٹ مذاکرات خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ قدم صرف امریکی عوام ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ان لاکھوں لوگوں کے لیے بھی نقصان دہ ہوگا جو ان فنڈز پر انحصار کرتے ہیں۔
عالمی امدادی پروگرامز پر بھی اثرات
اس اقدام سے اردن، مصر، اور دنیا کے دیگر اہم اتحادی ممالک کو ملنے والی امداد بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ اگرچہ وائٹ ہاؤس نے بعض پروگرامز جیسے فوڈ فار پیس اور عالمی صحت کے چند منصوبوں کو بچانے کی یقین دہانی کرائی لیکن اب بھی بڑی تعداد میں پروگرام متاثر ہوں گے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایڈز ریلیف پروگرام (پی پی ایف اے آر) کے لیے 400 ملین ڈالر کی مجوزہ کٹوتی واپس لینے کا فیصلہ ریپبلکن قیادت نے اس لیے کیا تاکہ اپنی ہی جماعت کے ناراض سینیٹرز کو راضی کیا جا سکے اور بل کی منظوری کے لیے ان کا ووٹ حاصل ہو سکے۔ وائٹ ہاؤس نے بھی اس تبدیلی پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔
یہ بل اب ایوان نمائندگان میں منظوری کے لیے پیش ہوگا، وہاں سے منظوری کے بعد یہ بل صدر ٹرمپ کے دستخط کے لیے وائٹ ہاؤس بھیجا جائے گا، جس کے بعد یہ باضابطہ قانون کی شکل اختیار کر لے گا۔
نتیجہ: مقامی میڈیا اور عالمی امداد کے لیے خطرے کی گھنٹی
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہ قانون لاگو ہو گیا تو چھوٹے نشریاتی اداروں، تعلیم، صحت اور انسانی حقوق کے عالمی پروگرامز کے لیے فنڈنگ کی بندش کا براہِ راست اثر ہوگا۔
این پی آر (NPR) اور پی بی ایس (PBS) جیسے بڑے ادارے کسی حد تک خود انحصار کر چکے ہیں لیکن چھوٹے اور مقامی براڈکاسٹرز کے لیے یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہوگی۔ کئی علاقوں میں مقامی ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشنز بند ہو سکتے ہیں یا انہیں اپنا عملہ کم کرنا پڑے گا جس سے بے روزگاری بھی پیدا ہو سکتی ہے۔