صدیوں پرانی برطانوی روایت، ہنسوں کی سالانہ مردم شماری سوان اپنگ شروع
سوان اپنگ: شاہی کشتیوں کی مدد سے دریائے ٹیمز میں ہنسوں کی گنتی اور طبی معائنہ جاری

لندن: برطانیہ میں ایک نہایت منفرد اور تاریخی روایت اس ہفتے ایک بار پھر منظرعام پر آ گئی، بادشاہ چارلس سوم کی زیرِ نگرانی دریائے ٹیمز پر ’’سوان اپنگ‘‘ یعنی شاہی ہنس مردم شماری کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا۔ یہ پانچ روزہ سالانہ تقریب بظاہر ہنسوں کی گنتی کا معمولی سا کام معلوم ہوتا ہے، مگر حقیقت میں اس کے پیچھے برطانیہ کی تاریخ اور شاہی روایات چھپی ہوئی ہیں۔
دریائے ٹیمز کے کنارے جب شاہی وردی میں ملبوس افراد کی سرخ جیکٹیں دھوپ میں چمک رہی تھیں اور لکڑی کی چھوٹی کشتیوں (Skiffs) کی ترتیب میں روانی دیکھنے والوں کے لیے ایک نظارہ بن چکی تھی، تو یہ صرف ایک تقریب نہیں بلکہ صدیوں پرانی برطانوی روایت کا زندہ استعارہ تھا۔
کیا ہے ’’سوان اپنگ‘‘؟
سوان اپنگ درحقیقت برطانوی بادشاہت کی ایک ایسی سرگرمی ہے جس کا آغاز بارہویں صدی میں ہوا تھا، جب ہنس نہ صرف شاہی دعوتوں کا ایک اہم حصہ سمجھے جاتے تھے بلکہ شاہی ملکیت بھی شمار ہوتے تھے۔ آج کے دور میں اگرچہ ہنسوں کو کھانے کا رواج باقی نہیں رہا مگر یہ روایت تاحال جاری ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانوی بادشاہ چارلس سوم کا ایک غیر معروف لقب (Seigneur of the Swans) یعنی ہنسوں کا مالک بھی ہے۔ اس لقب کے تحت برطانیہ کے تمام کھلے پانیوں میں پائے جانے والے mute swan (گونگا ہنس) قانونی طور پر بادشاہ کے ماتحت تصور کیے جاتے ہیں۔

گنتی کا عمل کیسے ہوتا ہے؟
ہر سال منتخب ماہرین اور اورسمین (کشتی چلانے والے) کی ایک ٹیم دریائے ٹیمز کے مخصوص حصے پر کشتیوں میں سوار ہو کر سفر کرتی ہے۔ یہ ٹیم شاہی سرخ وردی، ونٹنرز کمپنی کی سفید جیکٹ اور ڈائرز کمپنی کی نیلی پٹی والی وردیوں میں ملبوس ہوتی ہے۔ یہ دونوں کمپنیاں لندن کی صدیوں پرانی تجارتی انجمنیں ہیں جنہیں پندرھویں صدی میں دریائے ٹیمز کے کچھ ہنسوں کی ملکیت دی گئی تھی۔
جب پانی میں کسی ہنس کے خاندان کی نشاندہی ہوتی ہے تو مخصوص انداز میں پکارا جاتا ہے
All up! یعنی سب کشتیاں قریب آ جائیں۔ پھر تمام کشتیاں مربوط انداز میں ہنسوں کو آہستہ سے گھیر لیتی ہیں تاکہ ان کا بغور معائنہ کیا جا سکے۔ ہر نوجوان ہنس کو پانی سے نکال کر اس کے معائنہ کیا جاتا ہے اور اگر کوئی بیماری یا چوٹ پائی جائے تو اس کا اندراج کر لیا جاتا ہے، بعد ازاں ہنسوں کو دوبارہ پانی میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔

یہ محض روایت نہیں، ماحولیات کا حصہ بھی ہے
کنگ چارلس کے نمائندہ اور اس سرگرمی کے نگران ڈیوڈ باربر 30 سال سے اس تقریب کی قیادت کررہے ہیں۔ ڈیوڈ بابر کا کہنا ہے کہ یہ شاہی خاندان کی ایک روایت ہے لیکن یہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے بھی ایک نہایت اہم کام ہے۔ اس مردم شماری سے ہمیں دریاؤں میں ہنسوں کی آبادی، ان کی صحت، ان پر ہونے والے اثرات جیسے ماحولیاتی آلودگی یا بیماریوں کی نوعیت کا پتا چلتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ ہنس قانونی طور پر شکار سے محفوظ ہیں لیکن انہیں آج بھی بیماری، آلودگی، تخریب کاری اور انسانی ظلم جیسے خطرات لاحق ہیں۔
ایویئن فلو اور آبادی میں کمی
ڈیوڈ باربر کے مطابق گزشتہ دو سالوں میں ہنسوں کی تعداد میں خطرناک حد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ برطانیہ میں ایویئن فلو یعنی پرندوں کے فلو کا تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ سال کی مردم شماری کے دوران صرف 86 نوجوان ہنسوں کی شناخت کی گئی جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں 45 فیصد کم تھی۔ تاہم اس سال کے پہلے روز کے اختتام پر 16 نوجوان ہنس ریکارڈ کیے گئے جسے ایک مثبت علامت قرار دیا گیا ہے۔
پانچ دن، 130 کلومیٹر کا سفر
یہ پانچ روزہ مردم شماری سنبری سے لے کر ابنگڈن تک دریائے ٹیمز کے کنارے 80 میل یعنی 130 کلومیٹر کے فاصلے پر کی جاتی ہے۔ ہر دن مخصوص علاقوں کا دورہ کیا جاتا ہے۔ کبھی ہنس زیادہ ملتے ہیں تو کبھی کم۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اس عمل سے نہ صرف دریاؤں میں ہنسوں کی موجودگی کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا ان پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔
روایت کی گہرائی اور شاہی رنگ
یہ تقریب جہاں شاہی روایات اور برطانوی ثقافت کا حصہ ہے وہیں ماحولیاتی سائنسدانوں کے لئے بھی اہم ہے۔ لندن کے مختلف علاقوں کے لوگ، سیاح اور مقامی اسکولز کے بچے اس دلچسپ منظر کو دیکھنے کے لیے کشتیوں کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہیں۔
ان کشتیوں پر سوار افراد کے مخصوص رنگ برطانوی تاریخ کی نشانی ہیں:
سرخ شاہی نمائندہ
سفیدونٹنرز کمپنی (شراب سازوں کی قدیم انجمن)
نیلی پٹیوں والی سفید وردی – ڈائرز کمپنی (کپڑے رنگنے والے کاریگر)
بارہویں صدی میں جب ہنسوں کو شاہی بینکویٹ اور ضیافتوں کے لیے خوراک کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا تھا، تب بادشاہت نے انہیں اپنی ملکیت میں شمار کر لیا تھا تاکہ صرف شاہی اجازت کے تحت ان کا شکار کیا جا سکے۔ رفتہ رفتہ یہ روایت ایک مخصوص شاہی تقریب میں ڈھل گئی۔
اگرچہ اب برطانیہ میں ہنسوں کو کھانے کا کوئی رجحان نہیں بلکہ قانون کے تحت مکمل تحفظ حاصل ہے۔
ڈیوڈ باربر کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں یہ محض شاہی تقریب نہیں بلکہ ایک عملی سروے ہے جو برطانوی قدرتی حیات کے تحفظ کے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔
شاہی دلچسپی برقرار
شاہ چارلس سوم چونکہ ماحولیات اور قدرتی حیات سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں، اس لیے ان کے دورِ بادشاہت میں اس تقریب کو مزید تقویت ملی ہے۔ چارلس ماضی میں بھی ماحول دوست پراجیکٹس اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے متحرک کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
یہ روایت صرف برطانیہ تک محدود نہیں رہی بلکہ دنیا بھر کے میڈیا میں سوان اپنگ کی تصاویر اور ویڈیوز کو دلچسپ ثقافتی سرگرمی کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ جدید دور میں بھی کچھ قدیم رسومات اپنی سادگی، ماحول دوستی اور ثقافتی اہمیت کی بدولت زندہ ہیں۔
یہ مردم شماری رواں ہفتے جمعے تک جاری رہے گی۔ آخری دن تمام اعداد و شمار کا اعلان کیا جائے گا۔