بین الاقوامی
Trending

عالمی معیشت میں بڑی تبدیلی: امریکہ سے آزاد تجارتی اتحاد؟

یورپی یونین اور دیگر ممالک کا امریکی اثر سے نکلنے کی کوشش تیز، نیا عالمی تجارتی بلاک زیر غور

دنیا کے معاشی نظام میں ایک بڑی تبدیلی کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ امریکا کی جانب سے مسلسل بڑھتی ہوئی محصولات اور غیر یقینی معاشی پالیسیوں نے اس کے روایتی اتحادیوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ ایک ایسا عالمی معاشی بلاک تشکیل دیں جو امریکا کی اجارہ داری سے آزاد ہو۔

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یورپی یونین، انڈونیشیا، میکسیکو، کینیڈا، برازیل، تھائی لینڈ اور دیگر کئی ممالک اب امریکا سے اپنی معیشت کو الگ کرنے کے لئے تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس سارے عمل کا مقصد نہ صرف اپنے تجارتی مفادات کا تحفظ کرنا ہے بلکہ ایک ایسا نیا تجارتی نقشہ تیار کرنا ہے جس میں یو ایس اے کا کردار محدود ہو جائے۔

یورپی یونین کا بڑا فیصلہ

یورپی یونین کے لیے یہ فیصلہ آسان نہیں ، امریکا طویل عرصے سے یورپی مصنوعات کے لیے ایک بڑی مارکیٹ رہا ہے اور یورپ کی معیشت کا انحصار امریکی سرمایہ کاری اور برآمدات پر بھی رہا ہے۔ مگر جب ٹرمپ نے یکم اگست 2025 سے یورپی مصنوعات پر 30 فیصد نئے محصولات عائد کرنے کا باضابطہ اعلان کیا تو یورپی قیادت نے کھل کر اس کا جواب دینے کی تیاری شروع کر دی۔

یورپی یونین کی صدر ارسلا وان ڈیر لیین نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ امریکا کے بغیر بھی دنیا میں معیشت چل سکتی ہے، ہم اپنی عالمی شراکت داری کو مزید گہرا اور ایسے نئے تجارتی راستے بنائیں گے جو بین الاقوامی تجارت کے اصولوں پر منبی ہو۔

حکام کے مطابق ٹرمپ کا یہ فیصلہ اچانک نہیں تھا، گزشتہ چند ماہ سے یورپ اور امریکا کے درمیان تجارتی معاملات پر خفیہ مذاکرات جاری تھے جن میں رعایت دینے کے لیے بھی کئی تجاویز پیش کیں۔ حکام نے یہاں تک کہا تھا کہ وہ 10 فیصد تک بنیادی محصولات قبول کرنے کو تیار ہے تاہم مخصوص یورپی مصنوعات پر اپنا نرم رویہ رکھے لیکن ٹرمپ نے تمام مذاکرات کو نظرانداز کرتے ہوئے اچانک 30 فیصد ٹیرف نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔

امریکا کی تجارتی پالیسی: اتحادیوں کے لئے خطرہ یا موقع؟

ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کے مطابق اپنی معیشت کو فائدہ پہنچانے کے لیے دیگر ممالک سے زیادہ محصولات وصول کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف یورپی یونین بلکہ میکسیکو، کینیڈا، برازیل، بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ سمیت کئی ممالک پر بھی 30 سے 50 فیصد تک ٹیرف نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکا کے اتحادی یہ سب خاموشی سے برداشت کریں گے؟ تجزیہ کاروں نے واضح طور پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں ہوگا ۔دنیا بھر کے ممالک اب یہ سمجھ چکے ہیں کہ اگر وہ امریکی معیشت پر انحصار ختم نہ کریں تو ان کا مستقبل مسلسل خطرے میں رہے گا۔

یورپی کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا نے واضح طور پر کہا کہ ہم آزاد اور منصفانہ تجارت پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں اپنے تجارتی شراکت داروں سے تعلقات کو مزید مضبوط اور مستحکم کریں گے۔

نئی راہیں، نئے معاہدے

یورپی یونین نے اس صورتحال سے نکلنے کے لیے سب سے پہلے اپنی توجہ ایشیا کی طرف مرکوز کی ہے۔ انڈونیشیا کے ساتھ تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دی جا رہی ہے جس کے بعد انڈونیشیا کی تمام برآمدات یورپ میں بغیر کسی بھاری محصول کے جا سکیں گی۔

انڈونیشیا کے وزیر اقتصادی امور ایرلانگا ہارتارتو نے اس بارے میں کہا کہ ہم امریکی حکومت کے ساتھ اپنے تجارتی مسائل بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کریں گے لیکن اگر ٹرمپ انتظامیہ اور حکومت اپنی ضد یا سخت مؤقف پر قائم رہی تو انڈونیشیا اپنے تجارتی تعلقات کو مختلف ملکوں اور مارکیٹس تک پھیلائے گا تاکہ معیشت کسی ایک ملک پر منحصر نہ رہے۔ ہم یورپ کے ساتھ مل کر ایسی نئی راہیں تلاش کر رہے ہیں جو ہمارے معاشی مفادات کا تحفظ کر سکیں۔

انڈونیشیا سے جوتے، کپڑے، تانبا اور دیگر مصنوعات کی یورپ میں برآمدات پر آئندہ صفر فیصد ٹیرف ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ انڈونیشیا کی معیشت امریکا سے زیادہ یورپ کی طرف جھک جائے گی۔

مستقبل میں عالمی تجارتی نظام کی بنیاد؟

یورپی یونین کے تجزیہ کار اور معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک وقتی مسئلہ نہیں بلکہ مستقبل کا اہم رخ متعین کرنے والا لمحہ ہے۔ برسلز میں قائم بروگل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو جیکب فنک کا کہنا ہےکہ اگر بڑی عالمی معیشتیں اس حوالے سے مل کر حل نکالیں تو امریکی پالیسی ناکام ہو سکتی ہے۔

یورپی یونین کے سفیر برسلز میں ہنگامی اجلاس کر رہے ہیں اور یکم اگست سے پہلے جوابی اقدامات پر اتفاق ہو سکتا ہے۔ برسلز حکام نے پہلے ہی امریکی مصنوعات کے خلاف جوابی پیکج تیار کر رکھا ہے جو ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ٹیرف کے نفاذ کے ساتھ ہی لاگو کر دیا جائے گا۔

یورپ، میکسیکو، کینیڈا، برازیل: نیا معاشی اتحاد؟

ایسا نظر آ رہا ہے کہ ای یو (EU) اکیلی نہیںبلکہ میکسیکو، کینیڈا، برازیل، تھائی لینڈ اور دیگر ممالک بھی اسی جانب بڑھ رہے ہیں۔ یہ ممالک بھی اپنی معیشت کو آزاد کرنے کے لیے مختلف معاہدے کر رہے ہیں تاکہ ان کے برآمدات کا انحصار ایک ملک پر کم ہو۔

میکسیکو کے وزراء نے اعلان کیا تھا کہ یورپی یونین کے ساتھ مزید مضبوط معاشی تعلقات چاہتے ہیں۔ کینیڈا پہلے ہی یورپی یونین کے ساتھ آزاد تجارت کا معاہدہ (CETA) کر چکا ہے اور اب اس پر مزید تیزی سے عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔

برازیل بھی یورپ اور دیگر ممالک کے ساتھ نئے تجارتی معاہدے کر رہا ہے تاکہ امریکا پر انحصار کم سے کم ہو۔

تجارت سے آگے کی جنگ؟

بعض تجزیہ کاروں کے مطابق نئے تجارتی پلیٹ فارم کا قیام صرف ایک تجارتی جنگ نہیں بلکہ دنیا میں طاقت کے توازن کی لڑائی بھی ہے۔اگر دنیا کی بڑی معیشتیں ایک مضبوط نیا پلیٹ فارم تشکیل دینے میں کامیاب ہو گئیں تو شاید یہ امریکا کے عالمی اثر و رسوخ کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہو گا۔

منیجنگ ڈائریکٹر ایوریشیا گروپ مجتبیٰ رحمان کے مطابق ٹرمپ غیر یقینی صورتحال کو بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں تاکہ دیگر حکومتیں اور تجارتی شراکت داراس کی شرائط ماننے کو تیار ہو جائیں۔

مستقبل کا عالمی تجارتی منظرنامہ؟

تجزیہ کار متفق ہیں کہ اگر امریکی حکومت نے اپنی روش نہ بدلی تو مستقبل میں عالمی تجارت کا منظرنامہ مکمل طور پر بدل سکتا ہے۔ یورپ، ایشیا اور افریقہ کے ممالک امریکا کو بائی پاس کرتے ہوئے ایک دوسرے سے براہ راست مضبوط تعلقات استوار کریں گے۔

اس نئے منظرنامے میں چین کی حیثیت مزید مضبوط ہو سکتی ہے اور عالمی مارکیٹ میں ایک نیا تجارتی بلاک قائم ہو سکتا ہے۔اس سارے عمل سے امریکا کے عالمی اثرورسوخ کو زبردست دھچکہ لگے گا۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ایک ایسا عالمی معاشی بلاک قائم ہو سکتا ہے جو آزاد، مستحکم اور خود مختار ہو گا۔

kamran

Mian Kamran is a hardworking and knowledgeable journalist, passionate about reporting the truth and being the voice of the common people. He is content writer of Urdu24.com, where he brings fresh, accurate and impactful news from Pakistan and around the world to his readers on a daily basis.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button