صحت

کورونا کے بعد نیا بحران: 2025 میں خسرہ کی وبا پھر کیوں پھیل رہی ہے؟

اگر اس وباء کی روک تھام کے لئے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ وباء دوبارہ زور پکڑ سکتی ہیں، ماہرین نے خبردار کر دیا

گزشتہ دہائیوں کی شدید محنت اور ویکسینیشن پروگرامز کی بدولت کئی خطرناک متعدی بیماریوں جیسے خسرہ، پولیو اور روبیلا کو دنیا بھر میں بڑی حد تک قابو میں لایا گیا تھا۔ لیکن اب 2025 میں ویکسینیشن کی گرتی ہوئی شرح ایک نئے بحران کی صورت اختیار کر رہی ہیں اور صحت عامہ کے ماہرین خبردار کیا ہے کہ امریکہ میں خسرہ کی وبا پھر سر اٹھا رہی ہے۔ اگر اس وباء کی روک تھام کے لئے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ وباء دوبارہ زور پکڑ سکتی ہیں۔

ریاستہائے متحدہ میں 2000 میں خسرہ کے خاتمے کا اعلان کیا گیا تھا مگر اب 2025 میں یہی بیماری دوبارہ خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ امریکی ریاست ٹیکساس میں صرف رواں سال کے دوران خسرہ کے 753 کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے جن میں سے 98 مریضوں کو ہسپتال میں داخل کیا گیا اور دو بچوں کی ہلاکت رپورٹ ہوئی۔

ٹیکساس ڈیپارٹمنٹ آف اسٹیٹ ہیلتھ سروسز کا کی رپورٹ کے مطابق ویکسینیشن کی شرح جن علاقوں میں خطرناک حد تک کم ہوئی ان علاقوں میں وبا کے اثرات زیادہ ہوئے ہیں۔

ویکسینیشن کی شرح میں کمی: ایک خطرناک رجحان

امریکی بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے مراکز (سی ڈی سی)کے اعداد و شمار کے مطابق خسرہ، ممپس، روبیلا، چکن پاکس، پولیو اور پرٹیوسس (کالی کھانسی) کے خلاف حفاظتی ٹیکوں کی شرح 30 سے زیادہ ریاستوں میں کم ہو رہی ہے۔ یہ صورتحال صرف امریکہ تک محدود نہیں، بلکہ دنیا بھر میں ویکسینیشن مخالف مہمات، طبی نظام میں رکاوٹیں اور غلط معلومات کے باعث ویکسین سے بچنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔

کورونا کے بعد نیا بحران: 2025 میں خسرہ کی وبا پھر کیوں پھیل رہی ہے؟
امریکا میں خسرہ وباء کے پھیلاؤ کی مارچ 2025 کی رپورٹ

ماہرین کی رائے: کیا ہم پھر اسی دور میں جا رہے ہیں؟

سی این این کی سینئر میڈیکل تجزیہ کار اور معروف معالجہ ڈاکٹر لیانا وین کا کہنا تھا کہ جن بیماریوں کو سال 2000ء میں ختم کردیا گیا تھا وہ ویکسینیشن کی شرح میں کمی باعث واپس آ سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایشیائی ممالک جیسے افغانستان، پاکستان جیسے ممالک میں پہلے ہی اس کے ثبوت دیکھ چکے ہیں اور اب امریکا بھی اس میں شامل ہو چکا ہے۔

ڈاکٹر وین کا مزید کہنا تھا کہ جن ممالک میں جنگ اور تنازعات ہیں ان میں صحت عامہ کی سروسز میں کمی کی وجہ سے پولیو اور خسرہ کی نئی لہر پائی گئی ہے، اس سے پہلے ان علاقوں میں پولیو اور خسرہ کے تمام اثرات ختم ہو چکے تھے۔

اگر ویکسینیشن مزید کم ہوئی تو کیا ہو گا؟

امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے جریدے (JAMA) میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق اگر MMR ویکسین کی کوریج میں 10 فیصد کمی واقع ہوئی تو اگلے 25 سالوں میں خسرہ کے 11 ملین (1 کروڑ 10 لاکھ) سے زائد کیسز ہو سکتے ہیں۔ اگر معمول کے مطابق بچپن کی ویکسینیشن میں 50 فیصد کمی ہوئی تو خسرہ کے 51 ملین (5 کروڑ 10 لاکھ) ، روبیلا کے 9.9 ملین ، پولیو کے 4.3 ملین کیسز ہو سکتے ہیں۔

کورونا کے بعد نیا بحران: 2025 میں خسرہ کی وبا پھر کیوں پھیل رہی ہے؟
خسرہ کے حوالے سے سی سی ڈی کی رپورٹ: مئی 2025

یہ اعداد و شمار صرف انفیکشن تک محدود نہیں بلکہ ان بیماریوں کے سنگین نتائج بھی شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 10.3 ملین افراد متاثر ہو سکتے ہیں جن میں 159200 اموات، 5400افراد کو فالج اور 51200 افراد کو اعصابی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

کیا صرف غیر ویکسین شدہ افراد متاثر ہوں گے؟

ماہرین کے مطابق ویکسین تمام افراد کے لئے بہتر ہے مگر یہ سو فیصدیقینی نہیں ہوتا کہ یہ ویکسین سے مکمل محفوظ رہیں گے۔ ایم ایم آر (MMR) ویکسین کی 2 خوارکیں خسرہ کے خلاف تقریباً 97 فیصد تک موثر ہیں لیکن اگرخسرہ کی بیماری زیادہ پھیل جائے تو ویکسین لگوانے والے افراد بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پراگر ان کا مدافعتی نظام کمزور ہو یا وقت کے حساب سے ویکسین کا اثر کم ہو گیا ہو۔

ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ کچھ افراد جو کینسر کے مرض مبتلا ہوتے ہیں یا جو مریض ٹرانسپلانٹ کرواتے ہیں ان کے لئے ویکسین ضروری نہیں ، یہ ویکسین صرف ان کے لئے ایک حفاظتی دیوار کی مانند ہے، جسے میڈیکل کی زبان میں herd immunity کہتے ہیں۔

حاملہ خواتین اور ویکسینیشن

ایم ایم آر یا چکن پاکس جیسی ویکسینز میں زندہ کمزور وائرس شامل ہوتا ہے، اس لیے یہ حاملہ خواتین کو نہیں دی جا سکتیں۔ روبیلا کا وائرس حمل میں انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، جو دل کے امراض، دماغی پیچیدگیاں، بہرا پن، آنکھ، جگر، پھیپھڑوں، اور تھائیرائیڈ کے امراض کا سبب بن سکتا ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ویکسین متعارف ہونے سے پہلے ہر 1000 بچوں میں 4 روبیلا سنڈروم کے ساتھ پیدا ہوتے تھے۔

کن افراد کو سب سے زیادہ خطرہ ہے؟

سینئر میڈیکل تجزیہ کار اور معروف معالجہ ڈاکٹر لیانا وین تین ایسے گروپوں کی نشاندہی کی ہے جنہیں سب سے زیادہ خطرہ ہے، ان میں درج ذیل شامل ہیں۔

1. نوزائیدہ بچے: جو ویکسین لینے کے قابل نہیں ہوتے اور طبی لحاظ سے نازک ہوتے ہیں۔
2. امیونوکمپرومائزڈ افراد: جیسے کینسر، ٹرانسپلانٹ یا HIV کے مریض
3. بوڑھے افراد: جن میں زیادہ عمر ہونے اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے مدافعت کم ہوتی ہے۔

ہم کیا کر سکتے ہیں؟

اس حوالے سے سینئر میڈیکل تجزیہ کاروں نے مختلف تجاویز دیں جو درج ذیل ہیں۔

1۔ ہر فرد کو چاہیے کہ وہ اپنے خاندانی ڈاکٹر یا ماہر اطفال سے مشورہ کرے اور اپنے ویکسینیشن ریکارڈ کو اپڈیٹ کرے۔
2۔ بوسٹر خوراکیں (booster shots) حاصل کریں جو ڈاکٹر تجویز کریں۔
3۔ حاملہ ہونے سے پہلے خواتین کو ضروری ویکسین لگوا لینی چاہیے۔
4۔ سکول، کالجز اور دفاتر میں ویکسینیشن کی آگاہی مہمات چلائی جائیں۔

 

ایک اجتماعی ذمہ داری

ڈاکٹر وین کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ویکسین صرف انفرادی تحفظ کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی ذمہ داری بھی ہے۔ جب ہم خود کو ویکسین لگاتے ہیں، تو ہم اُن لوگوں کی بھی حفاظت کرتے ہیں جو خود یہ ویکسین لینے سے قاصر ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کویڈ-19 کی وبا کے دوران ہم نے بہت کچھ سکھا ہے جیسے ایک وائرس کیسے پوری دنیا کو مفلوج بنا سکتا ہے۔ اگر ہم اب بھی کوئی سبق نہیں سکھے تو آنے والے دنوں میں نہ صرف خسرہ بلکہ پولیو اور روبیلا جیسے امراض بھی ہمارے بچوں کے لیے دوبارہ خطرہ بن سکتے ہیں۔

صحافی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ویکسینیشن کی شرح میں کمی صرف ایک ذاتی فیصلہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی خطرہ بن چکی ہے۔ صحت کے عالمی ماہرین کا پیغام واضح ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ماضی کی خطرناک بیماریاں دوبارہ ہمارے دروازے پر نہ آئیں تو ہمیں اپنی ویکسینیشن اپڈیٹ رکھنی ہوگی اور یہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنی اگلی نسل کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔

آج جب ہم جدید ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت اور طب کے انقلابی دور میں داخل ہو چکے ہیں، ایسے میں یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ وہ بیماریاں جنہیں ہم نے برسوں کی محنت اور کروڑوں ڈالرز کی سرمایہ کاری سے ختم کیا تھا، وہ دوبارہ ہمارے دروازے پر پہنچ چکیں ہیں۔

ویکسین سے متعلق پھیلنے والی جھوٹی معلومات، سازشی نظریات اور سوشل میڈیا پر گمراہ کن مہمات نے عام فرد کے ذہن میں شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں جس کا خمیازہ اب ہم اجتماعی سطح پر بھگت رہے ہیں۔

یہ صرف سائنسی یا طبی مسئلہ نہیں بلکہ اب یہ ایک سماجی اور اخلاقی بحران بن چکا ہے۔ جب کوئی شخص اپنی مرضی سے ویکسین نہ لگوانے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے نتائج صرف اسی فرد تک محدود نہیں رہتے بلکہ قریب رہنے والے لوگ نوزائیدہ بچے، کمزور مدافعتی نظام رکھنے والے لوگ ، بزرگ اور حاملہ خواتین کے لئے بھی خطرہ بن جاتے ہیں ۔

یہ سوچنا کہ میں ویکسین لگوا چکا ہوں، مجھے فرق نہیں پڑتا ایک غلط فہمی ہے کیونکہ جب ایک کمیونٹی میں بیماری کا پھیلاؤ بڑھتا ہے تو ہر کوئی اس کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس سنگین بحران کو سنجیدگی سے لیں۔ حکومتوں، تعلیمی اداروں، مذہبی رہنماؤں اور میڈیا کو چاہیے کہ وہ متحد ہو کر اس پیغام کو عام کریں کہ ویکسین نہ صرف ایک طبی ضرورت ہے بلکہ ایک اخلاقی فریضہ بھی ہے۔

ویکسینیشن پر اعتماد بحال کرنا، عوام کو درست معلومات دینا اور صحت کو سیاسی یا مذہبی مسئلہ بنانے سے بچنا ہماری آئندہ نسلوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ازحد ضروری ہے۔

kamran

Mian Kamran is a hardworking and knowledgeable journalist, passionate about reporting the truth and being the voice of the common people. He is content writer of Urdu24.com, where he brings fresh, accurate and impactful news from Pakistan and around the world to his readers on a daily basis.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button