شیخہ اسماء الثانی نانگا پربت سر کرنے کے بعد پاکستان کی سیاحت کی برانڈ ایمبیسیڈر مقرر
نانگا پربت کو سر کرنے کے بعد پاکستانی حکومت کا اعزاز، وزیر اعظم شہباز شریف کی مبارکباد

اسلام آباد: پاکستان نے قطری شہزادی شیخہ اسماء الثانی کو ملک کی سیاحت اور مہم جوئی کو فروغ دینے کے لیے برانڈ ایمبیسیڈر مقرر کر دیا ہے۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے یہ فیصلہ شیخہ اسماء الثانی کی جانب سے دنیا کی بلند ترین اور خطرناک چوٹیوں میں شامل نانگا پربت کو کامیابی سے سر کرنے کے بعد کیا گیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ایکس” (سابقہ ٹوئٹر) پر شیخہ اسماء کو اُن کی کامیابی پر مبارکباد دی اور اُن کی ہمت، حوصلے اور پاکستان سے محبت کو سراہا۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ اعزاز نہ صرف کوہ پیمائی بلکہ پاکستان کی خوبصورتی کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی طرف ایک مثبت قدم ہے۔
شیخہ اسماء نے انسٹاگرام پر نانگا پربت کے تجربے کو بیان کرتے ہوئے کہاکہ "یہ میری نویں 8000 میٹر بلند چوٹی تھی اور اب تک کی سب سے مشکل۔ ہر لمحہ گرتے پتھروں اور مسلسل آزمائش نے مجھے وہ سکھایا جو کتابوں میں نہیں پڑھا جا سکتا۔
کوہ پیمائی میں نئی تاریخ رقم
شیخہ اسماء الثانی، نہ صرف نانگا پربت بلکہ ماؤنٹ ایورسٹ، لوٹسے، مناسلو، K2 اور اما دبلام جیسی چوٹیوں کو بھی سر کر چکی ہیں۔ وہ پہلی قطری خاتون ہیں جنہوں نے ان چوٹیوں کو کامیابی سے سر کیا۔
View this post on Instagram
مزید برآں وہ قطب شمالی تک سکی کرنے والی پہلی قطری شخصیت بھی ہیں اور مناسلو کی بلندی کو بغیر اضافی آکسیجن کے عبور کرنے والی پہلی عرب بن چکی ہیں۔ مئی 2024 میں انہوں نے دوبارہ لوٹسے کو بھی آکسیجن کے بغیر سر کر کے ایک اور تاریخ رقم کی اور اس طرح وہ دو 8000 میٹر بلند چوٹیوں کو بغیر آکسیجن سر کرنے والی پہلی عرب کوہ پیما بن گئیں۔
سیاحت و امور نوجوانان کے وفاقی وزیر نے اس موقع پر کہا کہ شیخہ اسماء کی کامیابی نہ صرف خواتین کے لیے تحریک کا ذریعہ ہے بلکہ پاکستان کی خوبصورتی اور محفوظ کوہ پیمائی کا پیغام دنیا بھر میں پھیلانے کا موقع بھی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ امید ہے کہ ان کی بطور برانڈ ایمبیسیڈر تقرری سے بین الاقوامی سیاح پاکستان کا رخ کریں گے اور ملک کی سیاحتی معیشت کو تقویت ملے گی۔
شیخہ اسماء الثانی کون ہے؟
شیخہ اسماء بنت ثانی بن جاسم آل ثانی کا تعلق قطر کے شاہی خاندان سے ہے لیکن ان کی شناخت صرف شاہی خاندان کی رکن کے طور پر نہیں بلکہ ایک مہم جو، کوہ پیما، اور عالمی سطح پر خواتین کے لیے رول ماڈل کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔ انہوں نے نہ صرف اپنے ملک بلکہ عرب دنیا میں خواتین کی نمائندگی کو نئی بلندیوں تک پہنچایا ہے۔
شیخہ اسماء نے کوہ پیمائی کا آغاز محض سیاحتی مشغلے کے طور پر کیا لیکن جلد ہی یہ ان کا شوق، جذبہ اور مشن بن گیا۔ انہوں نے پیشہ ورانہ تربیت حاصل کی اور دنیا کی سب سے خطرناک اور بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنے کے لیے خود کو ذہنی و جسمانی طور پر تیار کیا۔ ان کی پہلی نمایاں کامیابی ماؤنٹ ایورسٹ کی تسخیر تھی جس کے بعد انہوں نے K2، مناسلو، لوٹسے، اما دبلام، اور حالیہ دنوں میں نانگا پربت کو سر کر کے کوہ پیمائی کی دنیا میں اپنی پہچان مضبوط کی۔
ان کی ایک خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے کئی چوٹیوں کو بغیر اضافی آکسیجن کے سر کیا جو کوہ پیمائی میں اعلیٰ ترین ہنر اور برداشت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ وہ مناسلو کو بغیر آکسیجن سر کرنے والی پہلی عرب اور دو 8000+ چوٹیوں کو آکسیجن کے بغیر سر کرنے والی پہلی عرب شخصیت ہیں۔ ان کا ایک اور نمایاں کارنامہ قطب شمالی تک سکی کے ذریعے سفر ہے جس سے ان کا عالمی ایڈونچرزم میں کردار مزید مستحکم ہوتا ہے۔
شیخہ اسماء الثانی کی تاریخ صرف چوٹیوں پر فتح کے اعداد و شمار پر مبنی نہیں بلکہ یہ ایک ایسی مسلم اور عرب خاتون کی کہانی ہے جو روایتی رکاوٹوں کو توڑ کر دنیا کی بلند ترین بلندیوں پر پہنچی۔ ان کی یہ مہم جوئی نہ صرف خواتین کے حقوق، ماحولیاتی شعور اور ثقافتی تبادلے کے لیے ایک موثر ذریعہ ہے بلکہ پاکستان جیسے ملک کی پہاڑی سیاحت کے فروغ میں بھی ان کی خدمات اب سفارتی اور ثقافتی پہچان بن چکی ہیں۔