یوٹیوب پر ہالی ووڈ فلمیں غیر قانونی طور پر نشر، ڈزنی کو بھاری نقصان
ہالی ووڈ کی سمر بلاک بسٹر فلمیں ایک بار پھر یوٹیوب پر غیر قانونی طریقے سے دستیاب ہو رہی ہیں

سان فرانسسکو: ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک سخت قواعد، ٹیکنالوجی اور بڑے قانونی مقدمات کے ذریعے یوٹیوب نے اپنی شناخت ایک ذمہ دار پلیٹ فارم کے طور پر بنائی، جو کہ کاپی رائٹ کے تحفظ کے لیے فلم اسٹوڈیوز اور میڈیا ہاؤسز کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔ لیکن حالیہ تحقیق اور اعداد و شمار نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہالی ووڈ کی سمر بلاک بسٹر فلمیں ایک بار پھر یوٹیوب پر غیر قانونی طریقے سے دستیاب ہو رہی ہیں اور ان فلموں پر مشتمل ویڈیوز سے پلیٹ فارم اور مشتہرین دونوں ممکنہ طور پر فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
ڈزنی کی مشہور اینی میٹڈ فلم کو ملین ڈالرز کا نقصان:
ڈزنی نے 2002 کی مشہور اینی میٹڈ فلم Lilo & Stitch کا لائیو ایکشن ریمیک تیار کرنے میں تقریباً 100 ملین ڈالر خرچ کیے۔ فلم نے مئی کے مہینے میں اپنے افتتاحی ویک اینڈ پر دنیا بھر میں 361 ملین ڈالر کا کاروبار کیا اور باکس آفس پر مشن: امپاسیبل – دی فائنل ریکوننگ جیسے فلموں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ تاہم ڈزنی کے لیے خوشی کے اس موقع کو یوٹیوب پر فلم کے ایک پائریٹڈ ورژن نے پریشان کر دیا، جسے چند دنوں میں 200,000 سے زائد صارفین نے دیکھ لیا تھا۔
یہ دعویٰ ادالٹکس (Adalytics) کی تحقیق میں سامنے آیا ہے، جو ایک اشتہاری ڈیٹا اینالیٹکس فرم ہے اور مختلف برانڈز کے لیے اشتہاری مہم کا جائزہ لیتی ہے۔ ادالٹکس (Adalytics) کے مطابق یہ غیر قانونی ویڈیو ڈزنی کو ممکنہ طور پر لاکھوں ڈالر کے اشتہاری اور اسٹریمنگ نقصان میں لے گئی کیونکہ شائقین نے فلم کو سینما یا آفیشل اسٹریمنگ سروس پر دیکھنے کے بجائے یوٹیوب پر غیر قانونی طور پر دیکھنے کو ترجیح دی۔
جدید تکنیک اور یوٹیوب کا چیلنج
یوٹیوب پر فلمیں چوری کر کے اپ لوڈ کرنا (YouTube Pirates) کوئی نیا مسئلہ نہیں لیکن آج کے دور میں (Pirates) قزاقی یعنی چوری کرنے والے افراد اور گروہ اس قدر چالاک ہو چکے ہیں کہ وہ یوٹیوب کے سسٹم کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ادالٹکس (Adalytics) اوردی نیو یارک ٹائمز کی مشترکہ تحقیق کے مطابق یوٹیوب پرائریٹس نے فلموں کے فریم کاٹنے، ویڈیوز کو ریورس کرنے اور عام لوگوں کے کلپس ویڈیو کے آخر میں شامل کرنے جیسے حربے استعمال کیے تاکہ وہ یوٹیوب کے سسٹم سے بچ سکیں۔
یہی نہیں، یوٹیوب کا خودکار ریکمنڈیشن سسٹم ان ویڈیوز کو ہوم پیج پر دوسرے صارفین کو تجویز بھی کرتا رہا، جس سے ان کی رینکنگ اور ویوز میں اضافہ ہوا۔ اس میں حالیہ بلاک بسٹرز جیسے Lilo & Stitch کے علاوہ Captain America: Brave New Worldجیسی فلمیں بھی شامل تھیں۔
یوٹیوب کا مؤقف اور کانٹنٹ آئی ڈی (Content ID) کا کردار
یوٹیوب جو گوگل کی ملکیت ہے، کا کہنا ہے کہ اس کاکانٹنٹ آئی ڈی (Content ID) سسٹم دنیا کے سب سے مضبوط کاپی رائٹ انفورسمنٹ ٹولز میں سے ایک ہے۔ کمپنی کے ترجمان جیک میلون کے مطابق یوٹیوب نے گزشتہ سال 2.2 بلین ویڈیوز کو ریڈ فلیگ لگایا جن میں سے 90 فیصد کو کاپی رائٹ ہولڈرز نے پلیٹ فارم پر رہنے کی اجازت دی۔
تاہم جب Adalytics اور نیویارک ٹائمز نے یوٹیوب کو جائزے کے لیے 200 ایسی ویڈیوز فراہم کیں جن میں سے بیشتر مکمل فلمیں تھیں، یوٹیوب نے ان ویڈیوز کا تجزیہ تو کیا مگر اس بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا کہ ان میں سے کتنی ویڈیوز کو ہٹایا گیا یا کتنی ویڈیوز کو کاپی رائٹ ہولڈرز نے برقرار رکھا۔
یوٹیوب کا کہنا ہے کہ وہ صرف انہی ویڈیوز کو "غیر قانونی” تصور کرتا ہے جنہیں کاپی رائٹ ہولڈرز کی جانب سے باضابطہ شکایت پر ہٹایا جائے۔ یوٹیوب کے ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ غلطیاں ہوتی ہیں لیکن Adalytics کی رپورٹ کو انہوں نے اشتہاری کلائنٹس کو اپنی سروسز فروخت کرنے کی کوشش قرار دیا۔
مشتہرین کے لیے خطرے کی گھنٹی
Adalytics کی تحقیق نے ایک اور تشویش ناک پہلو کو اجاگر کیا: مشتہرین نادانستہ طور پر غیر قانونی مواد کو فنڈ کر رہے ہیں۔ کمپنی کے مطابق، Disney، HBO Max، Hulu، Fox Features اور درجنوں دیگر برانڈز کے اشتہارات غیر لائسنس یافتہ فلموں اور شوز کے ساتھ دکھائی دیے۔
Adalytics کے بانی کرزیزٹوف فرانسزیک کے مطابق ان کی تحقیق میں تقریباً 9,000 ایسی مثالیں ملیں جن میں مکمل طوالت کی فلمیں، نیٹ فلکس کی ایکسکلوزیو فلمز جیسے Extraction 2، مشہور ٹی وی شوز جیسے Family College اور AC Ball یوٹیوب پر پائریٹڈ حالت میں موجود تھیں اور ان کی مجموعی ویوز کی تعداد 250 ملین سے زائد تھی۔
قانون، یوٹیوب اور کاپی رائٹ کا بوجھ
واضح رہے کہ 2007 میں Viacom کی جانب سے یوٹیوب پر دائر کیے گئے مقدمے میں یہ خدشات ظاہر کیے گئے تھے۔ Viacom نے یوٹیوب پر یہ الزام لگایا تھا کہ پلیٹ فارم ان کے کاپی رائٹ شدہ مواد کی میزبانی کرتا ہے۔ تاہم 2012 میں عدالت نے یوٹیوب کے حق میں فیصلہ سنایا کہ وہ 1998 کے Digital Millennium Copyright Act کے تحت ذمہ داری سے مستثنیٰ ہے۔
سانتا کلارا یونیورسٹی کے قانون کے پروفیسر ایرک گولڈمین کے مطابق اس قانون نے کاپی رائٹ کی حفاظت کی ذمے داری پلیٹ فارم اور تخلیق کاروں سے اٹھا کر حقوق رکھنے والوں پر ڈال دی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا قانون نہ ہوتا تو انٹرنیٹ آج کی شکل میں موجود نہ ہوتا۔
ایک ارب ڈالر سالانہ کا نقصان؟
Alliance for Creativity and Entertainment کے مطابق جو دنیا بھر کی 50 تفریحی کمپنیوں پر مشتمل ایک تجارتی گروپ ہے، صرف امریکہ اور کینیڈا میں فلموں کی چوری یعنی Film piracy کی وجہ سے ہر سال باکس آفس کو \$1 بلین کا نقصان ہوتا ہے۔ یہ نقصان باکس آفس کی سالانہ آمدنی کا تقریباً 15 فیصد بنتا ہے۔
اشتہارات کے اخراجات اور گمشدہ ویڈیوز
تحقیق کا آغاز اس وقت ہوا جب Adalytics کے اشتہاری کلائنٹس نے نوٹ کیا کہ یوٹیوب پر ان کے اشتہارات کا 60 فیصد حصہ ایسی ویڈیوز پر خرچ ہو رہا ہے جو "اب دستیاب نہیں” کے زمرے میں آ چکی ہیں۔ جب مزید گہرائی میں جا کر دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ ویڈیوز بعد میں یا تو کاپی رائٹ کی خلاف ورزی، یا پھر عریانیت، نفرت انگیز مواد، یا پرتشدد مناظر کی وجہ سے ہٹا دی گئی تھیں۔
یوٹیوب جب کسی ویڈیو کو ہٹاتا ہے تو مشتہرین کے ریکارڈ سے اس ویڈیو کی تفصیلات بھی مٹا دی جاتی ہیں، جس سے مشتہرین کو یہ جاننے میں دشواری ہوتی ہے کہ ان کا پیسہ کس قسم کے مواد پر خرچ ہوا۔
Quote.com کے سینئر نائب صدر ایرک گارسیا کے مطابق ان کی کمپنی کے اشتہارات کئی ایسی ویڈیوز کے ساتھ چلتے رہے جو بعد میں غائب ہو گئیں جس کی وجہ سے ان کی مارکیٹنگ کی بصیرت محدود ہو گئی۔
مستقبل کا لائحہ عمل اور احتیاط
اگرچہ یوٹیوب کا Content ID سسٹم ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک کامیاب تجربہ مانا جاتا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ چوری شدہ مواد چلانے کے طریقے روز بروز چالاک ہوتے جا رہے ہیں۔ چوری شدہ مواد چلانے والے افراد اب فلم کو چند گھنٹوں کے لیے اپ لوڈ کرتے ہیں اور صارفین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے بعد خود ہی ویڈیو کو ہٹا دیتے ہیں تاکہ کوئی قانونی کارروائی نہ ہو۔
Adalytics کی رپورٹ کے مطابق مشتہرین اور فلم اسٹوڈیوز کو صرف یوٹیوب کے نظام پر انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنی جانب سے بھی فعال نگرانی اور رپورٹنگ کے نظام بنانے کی ضرورت ہے۔
یوٹیوب جیسا پلیٹ فارم جہاں روزانہ لاکھوں ویڈیوز اپ لوڈ کی جاتی ہیں، وہاں مکمل طور پر چوری شدہ مواد یعنی کانٹنٹ کو روکنا شاید ممکن نہ ہو لیکن اس تحقیق نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ موجودہ نظام میں خامیاں موجود ہیں جن سے چوری شدہ مواد چلانے والے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
ڈزنی جیسے بڑے اسٹوڈیوز کے لیے یہ ایک ویک اپ کال ہے کہ وہ نہ صرف یوٹیوب پر اپنے مواد کی نگرانی بڑھائیں بلکہ پلیٹ فارم کے ساتھ مل کر ایسا نظام وضع کریں جو حقیقی معنوں میں پائریسی کو روکے اور مشتہرین کے سرمائے کو غیر قانونی مواد سے دور رکھے۔