لیاری میں پانچ منزلہ عمارت زمین بوس، 7 افراد جاں بحق، 20 سے زائد کے دبے ہونے کا خدشہ
صدر، وزیراعظم اور وزیرداخلہ کا گہرے رنج و غم کا اظہار،ریسکیو آپریشن تیز کرنے کا حکم

کراچی میں لیاری کے علاقے بغدادی میں 5 منزلہ عمارت زمین بوس سے کم از کم 7 افراد جاں بحق جبکہ 8 زخمی ہو گئے ہیں۔
کراچی کے میئر مرتضی وہاب نے جاں بحق افراد کی تصدیق کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ کراچی میں لیاری کے علاقے بغدادی میں 5 منزلہ عمارت کے زمین بوس ہونے سے کم از کم 7 افراد جاں بحق جبکہ 8 زخمی ہو گئے ہیں جنہیں طبی امداد کے لئے ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ جاں بحق ہونے والے افراد کی لاشیں ہسپتال منتقل کر دی گئیں ہیں۔
ریسکیو 1122 کے مطابق زمین بوس ہونے والی عمارت کے ملبے سے مکینوں کو نکالنے کے لئے آپریشن جاری ہے۔ زخمیوں کو قریبی ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جہاں انہیں طبی امداد دی جا رہی ہے جبکہ جاں بحق افراد کی لاشیں بھی ہسپتال منتقل کر دی گئیں ہیں۔
صدر، وزیراعظم اور وزیرداخلہ کا گہرے رنج و غم کا اظہار،ریسکیو آپریشن تیز کرنے کا حکم
کراچی میں پیش آنے والے افسوسناک عمارت گرنے کے واقعے پر ملک کی اعلیٰ قیادت نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ محسن نقوی نے جاں بحق افراد کے اہلِ خانہ سے اظہارِ افسوس کیا۔انہوں نے زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لیے دعا کرتے ہوئے سندھ حکومت کو ہدایت کی کہ امدادی سرگرمیوں میں فوری تیزی لائی جائے تاکہ متاثرین کو بروقت مدد فراہم کی جا سکے۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے جاں بحق افراد کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی اور ان کے اہلِ خانہ سے دلی تعزیت کی۔ وزیراعظم نے متعلقہ اداروں کو ہدایت کی کہ زخمیوں کو ہر ممکن طبی سہولتیں فراہم کی جائیں اور ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کے لیے ریسکیو آپریشن میں مزید تیزی لائی جائے۔
علاوہ ازیں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ جاں بحق ہونے والوں کے اہلِ خانہ کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ انہوں نے زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لیے دعا کی اور متعلقہ اداروں سے ریسکیو و ریلیف کے عمل کو مؤثر بنانے کی ہدایت کی۔
20 سے زائد افراد کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ
شہر قائد کے علاقے لیاری میں واقع بغدادی تھانے کی حدود میں ایک رہائشی عمارت منہدم ہونے کے واقعے نے علاقے میں کہرام مچا دیا۔ پولیس اور ریسکیو ذرائع کے مطابق حادثے میں کئی افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ درجنوں کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔
ایس ایچ او بغدادی نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں بتایا کہ اب تک ملبے سے نکالے گئے پانچ زخمیوں کو سول ہسپتال کراچی منتقل کیا گیا ہے۔ زخمیوں میں راشد ولد عزیز (25 سال)، یوسف ولد سبحان (45 سال)، سنیتہ زوجہ چینن (35 سال)،فاطمہ زوجہ بابو (50 سال)،چندہ زوجہ جمعہ (35 سال) شامل ہیں
ڈپٹی میئر کا دورہ اور امدادی کارروائیوں کی نگرانی
ڈپٹی میئر کراچی سلمان عبداللہ مراد نے جائے حادثہ کا دورہ کیا اور امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیا۔ انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ عمارت کے ملبے تلے 20 سے 25 افراد کے دبے ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ان افراد کو نکالنے کے لیے بھاری مشینری اور ریسکیو ٹیمیں مسلسل کام کر رہی ہیں۔
انہوں نے متعلقہ اداروں کو ہدایت کی کہ امدادی کارروائیوں میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے اور تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے جائیں۔
سندھ بھر میں 800 سے زائد مخدوش عمارتیں، فوری خالی کرانے کی سفارش
یاد رہے کہ دسمبر 2024 میں سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (PAC) نے ایک اہم اجلاس میں صوبائی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ شہریوں کی جانوں کے تحفظ کے لیے خطرناک قرار دی گئی عمارتوں کو ہنگامی بنیادوں پر خالی کرایا جائے۔
سندھ بھر میں 800 سے زائد مخدوش عمارتیں ہیں جنہیں محکمہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹ ( پی اے سی) نے ہنگامی بنیادوں پر خالی کرانے کی ہدایت کی تھی۔ اس تناظر میں حالیہ عمارت گرنے کے واقعات نے ایک بار پھر ان احکامات کی یاد دہانی کرا دی ہے۔
کراچی میں 570 عمارتیں خطرناک قرار
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (SBCA) کے ڈائریکٹر جنرل نے اجلاس میں بتایا تھا کہ کراچی شہر میں 570 عمارتیں ایسی ہیں جنہیں اتھارٹی نے باقاعدہ طور پر خطرناک قرار دیا ہے۔ ان عمارتوں کی موجودگی ایک مستقل خطرہ بنی ہوئی ہے، خاص طور پر مون سون اور برسات کے موسم میں۔
دیگر شہروں کی صورتحال بھی تشویشناک
SBCA کی رپورٹ کے مطابق خطرناک عمارتوں میں حیدرآباد کی 80 عمارتیں، میرپورخاص: 81 عمارتیں، سکھر: 67 عمارتیں اور لاڑکانہکی 4 عمارتیں شامل ہیں۔
مجموعی طور پر صوبے بھر میں 800 سے زائد مخدوش عمارتیں موجود ہیں، جن سے شہریوں کی زندگیاں ہر وقت خطرے میں رہتی ہیں۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سفارشات
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے متفقہ طور پر صوبائی انتظامیہ کو ہدایت کی تھی کہ ان خطرناک عمارتوں کو فوری خالی کرانے کے لیے سخت اور ہنگامی اقدامات کیے جائیں تاکہ انسانی جانوں کا ضیاع روکا جا سکے۔
تاہم حالیہ حادثات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس سمت میں عمل درآمد سست روی کا شکار ہے۔