پاکستان کا سندھ طاس معاہدے پر عالمی ثالثی عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم
بھارت سے عالمی ثالثی عدالت کے ضمنی فیصلے پر فوری عملدرآمد کا مطالبہ

ہیگ: پاکستان نے سندھ طاس معاہدے پر عالمی ثالثی عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان نے عالمی ثالثی عدالت (پی سی اے) کے سندھ طاس معاہدے کے معاملے پر فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے بھارت سے فوری طور پر عملدر آمد کا مطالبہ کر دیا ہے۔
دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق پاکستان نے ہیگ میں مستقل ثالثی عدالت (پی سی اے) کے حالیہ ضمنی فیصلے کا خیر مقدم کیااور عدالت نے بھارت کی جانب سے یکطرفہ کارروائی کو مسترد کرتے ہوئے موثر کارروائی جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔
ترجمان کے مطابق پی سی اے کے فیصلے سے پاکستان کا سندھ طاس معاہدے پر موقف ایک بار پھر درست ثابت ہوا ہے۔
بھارت کو اس معاہدے پر یکطرفہ اختیار حاصل نہیں
بیان میں کہا گیا کہ بھارت کو اس معاہدے پر یکطرفہ اختیار حاصل نہیں اور پی سی اے کے اس فیصلے سے یہبھی واضح ہو گیا کہ سندھ طاس معاہدہ فعال اور موثر ہے۔ پاکستان کی جانب سے بھارت سے فوری طور پر عملدر آمد کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ بھارت کشن گنگا اور رتلے منصوبوں پر پاکستان کا موقف نہ صرف درست پر مضبوط ہے جسے عالمی ثالثی عدالت نے تسلیم کیا ہے۔
PR No.1️⃣9️⃣2️⃣/2️⃣0️⃣2️⃣5️⃣
Pakistan Welcomes the Supplemental Award Announced by the Court of Arbitration
In a Supplemental Award announced on 27 June 2025, the Court of Arbitration hearing the Pakistan-India dispute over Kishenganga and Ratle hydroelectric projects has found that… pic.twitter.com/moo4wndr6U
— Ministry of Foreign Affairs – Pakistan (@ForeignOfficePk) June 30, 2025
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق ضمنی فیصلہ پاکستان کے موقف کی توثیق کرتا ہے، پاکستان بھارت پر زور دیتا سندھ طاس معاہدے کو معمول کے طور پر چلائےاور بھارت اپنے معاہدے کی تمام تر ذمہ داریوں کو پورا کرے۔
واضح رہے کہ پی سی اے کے قواعد کے مطابق تکمیلی فیصلہ عدالت یا ٹربیونل کی طرف سے پہلے دیے گئے فیصلے کے بعد جاری کیا جانے والا اضافی فیصلہ ہوتا ہے، جو عموماً کسی ایسے مخصوص مسئلے کو حل کرنے کے لیے دیا جاتا ہے جو مکمل طور پر حل نہ ہو پایا ہو۔
اپریل میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے پہلگام میں ہونے والے حملے کے بعد سندھ طاس معاہدے کو معطل کر دیا تھا، جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے، نئی دلی نے بغیر کسی ثبوت کے اس واقعے کا الزام اسلام آباد پر عائد کیا تھا۔
تاہم پاکستان نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کو جنگی اقدام‘قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ سندھ طاس معاہدے میں یکطرفہ معطلی کی کوئی شق موجود نہیں۔
بعد ازاں پاکستان نے 1969 کے ویانا کنونشن آن دی لا آف ٹریٹیز کی خلاف ورزی کو بنیاد بنا کر عدالت سے رجوع کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو پاور منصوبوں کے تنازع پر ثالثی کرنے والی عدالت نے 27 جون 2025 کو جاری ہونے والے تکمیلی فیصلے میں قرار دیا تھا کہ اس کا دائرہ اختیار برقرار ہے اور اس پر لازم ہے کہ وہ ان کارروائیوں کو بروقت، مؤثر اور منصفانہ طریقے سے آگے بڑھائے۔
دفتر خارجہ نے کہا کہ عدالت نے بھارت کی طرف سے انڈس واٹر ٹریٹی کو غیر قانونی اور یکطرفہ طور پر معطل کرنے کے اعلان کے پیش نظر یہ تکمیلی فیصلہ جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔
حکومت نے کہا تھا کہ اس وقت سب سے اہم ترجیح یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان دوبارہ بامقصد بات چیت کی راہ تلاش کریں، جس میں سندھ طاس معاہدے سمیت دیگر کا اطلاق بھی شامل ہو۔
دوسری جانب بھارتی اخیار دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق بھارت وزارت خارجہ نے عالمی ثالثی عدالت (پی سی اے) کے فیصلے کو یکسر مسترد کر دیا ہے اور کہا کہ عالمی ثالثی عدالت کے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے۔
رپورٹ کے مطابق بھارت وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ بھارت نے کبھی بھی اس نام نہاد ثالثی عدالت کو قانونی طور پر تسلیم نہیں کیا اور بھارت کا مؤقف ابتدا سے ہی یہ رہا ہے کہ اس نام نہاد ثالثی ادارے کا قیام بذات خود انڈس واٹر ٹریٹی کی سنگین خلاف ورزی ہے اور اس لیے اس فورم کے سامنے کوئی بھی کارروائی یا اس کا کوئی بھی فیصلہ یا ایوارڈ غیر قانونی اور ازخود کالعدم ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق عالمی ثالثی عدالت (پی اے سی) کا فیصلہ اس بات کی تصدیق ہے کہ بین الاقوامی معاہدے یکطرفہ طور پر ختم یا معطل نہیں کیے جا سکتے۔پاکستان کی جانب سے ویانا کنونشن کی شقوں کا حوالہ دینا ایک مضبوط قانونی قدم تھا، جسے ثالثی عدالت نے سنجیدگی سے لیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پانی محض ایک ریاستی اثاثہ نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں کی زندگی سے جڑا مسئلہ ہے۔ سندھ طاس معاہدے کا تحفظ جنوبی ایشیا میں ماحولیاتی انصاف اور پائیدار ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔
یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدہ 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا تھا، جس نے دریاؤں کی تقسیم کا ایک مستقل فریم ورک فراہم کیا۔