ملک میں پارلیمانی جمہوری نظام پائیدار نہیں، مولانا فضل الرحمٰن
ایوانوں کو ایسے افراد سے بھر دیا جاتا ہے جنہیں قرآن و سنت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف)
پشاور: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا ہمارے اکابرین کا مشن رہا ہے، مگر ملک میں پارلیمانی جمہوری نظام پائیدار نہیں اور اس پر مسلسل سوالات اٹھ رہے ہیں۔
پشاور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ایوانوں کو ایسے افراد سے بھر دیا جاتا ہے جنہیں قرآن و سنت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ ان کے مطابق سفارشات تو موجود ہیں لیکن ان پر آج تک کوئی قابل ذکر بحث نہیں کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ فرقہ وارانہ عناصر کی موجودگی ایک حقیقت ہے اور یہ عناصر اس وقت اشتعال پیدا کرتے ہیں جب ریاست یا حکومت کو اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ فرقوں کو لڑانے کے پیچھے بعض اوقات ریاستی اداروں کی باقاعدہ منصوبہ بندی ہوتی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے انکشاف کیا کہ کرم ایجنسی کے فسادات کی آگ مقامی سطح پر محدود رہتی ہے لیکن اس کی گرمی کراچی اور لکھنؤ تک محسوس کی جاتی ہے۔ ان کے مطابق مقامی لوگ مسائل کو سمجھتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ کرم کا مسئلہ کیسے حل ہوگا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب علماء اور مدارس ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں تو انہیں سزا کس بات کی دی جا رہی ہے؟ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ڈالر کمانے کا سلسلہ کب ختم ہوگا؟
مولانا نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر جمعیت علمائے اسلام واحد جماعت تھی جس نے حکومت کا بھرپور مقابلہ کیا۔ ان کے مطابق اس ترمیم کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 8 کو چیلنج کیا گیا، جو بنیادی انسانی حقوق کا محافظ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں عدالتوں کو کھلونا بنا دیا گیا ہے اور حکومت نے ہائی کورٹ کے ججوں کی تبدیلی کا اختیار بھی اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ جہاں اکثریت اس بات پر متفق ہو کہ قرآن و سنت کے منافی قانون سازی نہیں ہوگی، اس جمہوریت کو کفر قرار دینا درست نہیں۔ انہوں نے جذباتی اور تنگ نظر فتوؤں کو غیر سنجیدہ قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں: اتحادی حکومت میں معمولی اختلافات اور ہلکی پھلکی موسیقی چلتی رہتی ہے، احسن اقبال
انہوں نے مزید کہا کہ خیبرپختونخوا میں فارم 47 کی حکومت قائم ہے جبکہ بلوچستان میں ضمنی انتخابات میں نادرا نے صرف 2 فیصد ووٹوں کی تصدیق کی، باقی ووٹوں کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ملٹری کورٹس کے حوالے سے انہیں کہا گیا کہ اگر اقدامات نہ کیے گئے تو 9 مئی جیسے واقعات دوبارہ ہو سکتے ہیں۔ مولانا نے سوال اٹھایا کہ کیا اس ایک واقعے کے بدلے ایک صوبے کی حکومت انعام میں دے دی گئی؟
انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کے حمایت یافتہ بیانات پر حکومت قرارداد منظور کر لیتی ہے لیکن مدارس کے حوالے سے فیٹف کی شرائط پر دباؤ ڈالتی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے بل پر پہلے دستخط نہیں کیے، پھر اعتراضات اٹھا دیے، اور جب نوٹیفکیشن جاری ہوا تو اس میں بھی بے ضابطگی سامنے آئی۔