پاکستان اور بھارت نے جوہری تنصیبات کی فہرستوں کا تبادلہ کر لیا
دونوں ممالک کے درمیان یہ فہرستوں کا تبادلہ جوہری تنصیبات پر حملوں کی ممانعت کے معاہدے کے تحت کیا گیا
پاکستان اور بھارت نے آج اپنی جوہری تنصیبات کی فہرستوں کا تبادلہ کیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے ایک بیان میں کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان یہ فہرستوں کا تبادلہ جوہری تنصیبات پر حملوں کی ممانعت کے معاہدے کے تحت کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کی فہرست بھارتی ہائی کمیشن کے نمائندے کے حوالے کی گئی۔ اسی طرح، بھارتی وزارت خارجہ نے بھارت کی فہرست پاکستانی ہائی کمیشن کے نمائندے کو نئی دہلی میں دی۔
دفتر خارجہ نے وضاحت کی کہ دونوں ممالک کے درمیان یہ معاہدہ 31 دسمبر 1988 کو دستخط کیا گیا تھا۔ معاہدے کے تحت ہر سال دونوں ممالک یکم جنوری کو ایک دوسرے کو اپنی جوہری تنصیبات کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ یہ عمل یکم جنوری 1992 سے جاری ہے، اور دونوں ممالک ہر سال یہ فہرستیں ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ملک بھر کی موٹرویز پر ٹول ٹیکس میں اضافے کا اعلان
یاد رہے کہ اس سے قبل یکم جولائی 2024 کو پاکستان اور بھارت نے قیدیوں کی فہرستوں کا بھی تبادلہ کیا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان اس معاہدے کے مطابق، ہر چھ ماہ بعد دونوں ممالک ایک دوسرے کی جیلوں میں قید افراد کی تفصیلات کا تبادلہ کرتے ہیں۔
قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ 2008 کے قونصلر رسائی معاہدے کے تحت کیا جاتا ہے، جس کے مطابق دونوں ممالک ہر سال یکم جنوری اور یکم جولائی کو اپنے قیدیوں کی فہرستیں ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا کہ پاکستان کی جانب سے 254 بھارتی قیدیوں اور ماہی گیروں کی فہرست بھارت کے حوالے کی گئی تھی، جبکہ بھارت نے 452 پاکستانی قیدیوں کی تفصیلات فراہم کیں۔
پاکستان نے اس کے ساتھ ساتھ 38 پاکستانی دفاعی اہلکاروں کی فہرست بھی فراہم کی، جو 1965 اور 1971 کی جنگ کے دوران بھارت کی تحویل میں ہیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان متنازع سمندری حدود اور ماہی گیروں کے پاس اچھی تکنیکی سہولتوں کی کمی کی وجہ سے اکثر ماہی گیر سمندری حدود میں تجاوز کر جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے دونوں ممالک کے ماہی گیروں کی گرفتاری ایک عام بات بن چکی ہے، لیکن کشیدہ تعلقات کی وجہ سے ان کی رہائی کا عمل پیچیدہ ہو جاتا ہے۔
اکثر ماہی گیروں کو اپنی کشتیوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے کیونکہ گرفتار کرنے والے حکام ان کی کشتیاں اپنے قبضے میں رکھتے ہیں۔ ان ماہی گیروں کی رہائی میں کئی مہینے بلکہ بعض اوقات ایک سال سے زائد وقت لگ جاتا ہے۔