ٹیکنالوجی

میٹا کا فیس بک اور انسٹا گرام کو مصنوعی ذہانت کے کرداروں سے بھرنے کا فیصلہ

صارفین میٹا کے اے آئی اسٹوڈیو میں جا کر خود اے آئی کردار تیار کر سکیں گے

میٹا نے فیس بک اور انسٹا گرام کو مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے کرداروں سے بھرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق میٹا کی طرف سے اے آئی کرداروں کو اس مقصد کے تحت فیس بک اور انسٹا گرام کا حصہ بنایا جا رہا ہے تاکہ ان پلیٹ فارمز پر صارفین کی انگیجمنٹ میں اضافہ ہو سکے۔

صارفین میٹا کے اے آئی اسٹوڈیو میں جا کر خود اے آئی کردار تیار کر سکیں گے، تاکہ وہ ان سے ویسے ہی رابطہ کر سکیں جیسے وہ حقیقی انسانوں سے کرتے ہیں۔

میٹا کے جنریٹیو اے آئی شعبے کے نائب صدر کونر ہیز نے بتایا کہ انہیں توقع ہے کہ یہ اے آئی کردار وقت کے ساتھ ان کے پلیٹ فارمز پر موجود ہوں گے، بالکل اسی طرح جیسے صارفین کے اکاؤنٹس اب موجود ہیں۔

کونر ہیز نے مزید بتایا کہ ان اے آئی کرداروں کی اپنی پروفائل پکچرز ہوں گی، اور وہ اے آئی پر مبنی مواد تیار کر کے شیئر کر سکیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: وٹامن ڈی کی کمی کی 7 بڑی نشانیاں، جسمانی اور ذہنی صحت پر خطرناک اثرات

یہ کوئی نیا فیچر نہیں ہے، کیونکہ اے آئی اسٹوڈیو میں جا کر یہ کردار پہلے ہی تیار کیے جا سکتے ہیں، مگر اب تک لاکھوں اے آئی کردار اس اسٹوڈیو سے تیار ہو چکے ہیں۔

میٹا کا خیال ہے کہ یہ صرف آغاز ہے، کیونکہ اے آئی اسٹوڈیو کو اب امریکا سے باہر دیگر ممالک میں بھی متعارف کرایا جا رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، کمپنی کی ترجیح ہے کہ اگلے دو سالوں میں اے آئی ٹیکنالوجی کو زیادہ سوشل بنایا جائے۔

فرضی کرداروں کے علاوہ، اے آئی اسٹوڈیو میں فیس بک اور انسٹا گرام کے صارفین کو اپنے ذاتی اے آئی ورژن تیار کرنے کی سہولت بھی دی جا رہی ہے، جس سے ان کے فالوورز بات چیت کر سکتے ہیں۔

اس حوالے سے، یہ کہنا ابھی مشکل ہے کہ ان اے آئی کرداروں سے صارفین کی پرائیویسی پر کوئی اثر پڑے گا یا نہیں۔

فنانشل ٹائمز سے بات کرتے ہوئے میٹا کی کری ایٹر انو یشنز ٹیم کی سابق سربراہ بیکی اون نے کہا کہ اگر ٹھوس حفاظتی اقدامات نہ کیے گئے تو اے آئی اکاؤنٹس سے گمراہ کن مواد پھیلنے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ صارفین کو فائدہ نہ ہو بلکہ اے آئی کردار ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انسانی صارفین کے برعکس اے آئی کرداروں کو زندگی کے تجربات یا جذبات کا علم نہیں ہوتا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button