مدارس رجسٹریشن بل: وفاقی کابینہ نے مولانا فضل الرحمٰن کا مطالبہ تسلیم کرلیا
وفاقی کابینہ نے مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے آرڈیننس جاری کرنے کی منظوری دے دی
اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے آرڈیننس جاری کرنے کی منظوری دے دی۔ اس کے ساتھ انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس میں ترمیم کی بھی منظوری دی گئی، جس کے تحت بینکوں کے منافع پر بھاری ٹیکس نافذ کیا جائے گا۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا، جس میں ملک کی مجموعی سیاسی اور معاشی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس کے دوران مدارس رجسٹریشن کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
مدارس رجسٹریشن بل کا پس منظر
اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ نے 16 دسمبر کو مطالبہ کیا تھا کہ مدارس رجسٹریشن بل، جو کہ ایکٹ کی شکل اختیار کر چکا ہے، کا گزٹ نوٹیفکیشن فوری طور پر جاری کیا جائے تاکہ اس پر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔
اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر علما کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مفتی منیب الرحمٰن نے اس معاملے پر تفصیلات بیان کیں۔ انہوں نے بتایا کہ مدارس رجسٹریشن بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے 20 اور 21 اکتوبر 2024 کو منظور کیا گیا تھا اور اسے قومی اسمبلی کے اسپیکر نے صدر کو حتمی منظوری کے لیے ارسال کیا تھا۔
صدر مملکت کے اعتراضات
28 اکتوبر کو صدرِ مملکت نے بل میں کچھ ترامیم کی نشاندہی کی، جسے اسپیکر قومی اسمبلی نے تصحیح کے بعد دوبارہ صدر کو ارسال کیا۔ صدر نے 10 دن کی مدت میں کوئی اعتراض نہیں اٹھایا، تاہم 13 نومبر کو نئے اعتراضات سامنے آئے، جو قانونی طور پر غیر مؤثر تھے۔
مفتی منیب الرحمٰن نے کہا کہ یہ بل قانونی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اس کی واضح نظیر ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر اس بل کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا جائے تاکہ اس پر عمل درآمد شروع ہو سکے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو علما کرام مشاورت کے بعد آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن کا بیان
12 دسمبر کو مولانا فضل الرحمٰن نے واضح طور پر کہا تھا کہ مدارس بل ایکٹ بن چکا ہے اور نوٹیفکیشن میں تاخیر ناقابل قبول ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دینی مدارس کے معاملات کو غیر ضروری طور پر الجھایا جا رہا ہے۔
صدر مملکت کے اعتراضات کی نوعیت
13 دسمبر کو صدر مملکت آصف زرداری نے کہا کہ مدارس رجسٹریشن بل میں شامل شقیں سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 کے ابتدائیہ سے متصادم ہیں۔ ان کا مؤقف تھا کہ نئے قانون سے فرقہ واریت کے پھیلنے کا خدشہ ہے۔
جے یو آئی (ف) کے سینیٹر مولانا عبدالواسع نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ اگر مدارس کے حوالے سے مسائل حل نہ کیے گئے تو احتجاج کیا جائے گا اور دھرنا دیا جائے گا۔
مدارس رجسٹریشن بل کی تفصیلات
مدارس رجسٹریشن بل کو ‘سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2024’ کا نام دیا گیا۔ اس بل میں درج ذیل اہم نکات شامل ہیں:
-ہر دینی مدرسے کی رجسٹریشن لازم قرار دی گئی۔
– پہلے سے قائم مدارس کو 6 ماہ کے اندر رجسٹریشن کرانی ہوگی۔
– نئے مدارس کو ایک سال کے اندر رجسٹریشن کرانی ہوگی۔
– مدارس کو اپنی تعلیمی سرگرمیوں اور مالی حسابات کی سالانہ رپورٹ جمع کرانی ہوگی۔
– کسی بھی مدرسے کو ایسا لٹریچر پڑھانے یا شائع کرنے کی اجازت نہیں ہوگی جو عسکریت پسندی یا فرقہ واریت کو فروغ دے۔
– مدارس کو مرحلہ وار عصری مضامین نصاب میں شامل کرنے ہوں گے۔
– ایک بار رجسٹر ہونے کے بعد مدارس کو کسی اور قانون کے تحت دوبارہ رجسٹریشن کی ضرورت نہیں ہوگی۔
مدارس بل کو علما کرام نے وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے اس کے فوری نفاذ کا مطالبہ کیا ہے۔