24 نومبر کے احتجاج کے دوران گرفتار 32 ملزمان ڈسچارج
عدالت نے پولیس کی درخواست مسترد کرتے ہوئے 32 ملزمان کو فوری ڈسچارج کرنے کا حکم دیا
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے 24 نومبر کے احتجاج کے دوران گرفتار کیے گئے 32 ملزمان کو کیس سے ڈسچارج کر دیا، جب کہ جج نے رات گئے جہلم کی جیل سے ملزمان کو عدالت میں پیش کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تمام ملزمان کی ہتھکڑیاں کھلوائیں۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کیس کی سماعت کے دوران پولیس کی جانب سے تھانہ آئی نائن اور تھانہ مارگلہ کے مقدمات میں گرفتار ملزمان کو پیش کرنے پر کارروائی کی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ 32 ملزمان کو 25 نومبر کو گرفتار کیا گیا، تاہم شناخت پریڈ مکمل نہیں ہو سکی اور 30 دن کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی گئی۔
ملزمان کے وکیل انصر کیانی رات گئے عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان کی شناخت پریڈ بھی نہیں ہوئی، پولیس محض نمبرز پورے کرنے کے لیے مزدوروں کو گھروں سے اٹھا کر احتجاج کے کیس میں ملوث کر رہی ہے۔
عدالت نے پولیس کی درخواست مسترد کرتے ہوئے 32 ملزمان کو فوری ڈسچارج کرنے کا حکم دیا۔ جج نے سخت ریمارکس دیے کہ اگر پولیس نے دوبارہ انہیں گرفتار کیا تو پولیس اہلکاروں کو بھی ہتھکڑی لگوا دی جائے گی۔
یاد رہے کہ 24 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی رہائی کے لیے، ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی قیادت میں پی ٹی آئی کے کارکنان نے پشاور سے اسلام آباد کی جانب مارچ کیا تھا۔
مارچ کے شرکا 25 نومبر کی شب اسلام آباد کے قریب پہنچ گئے، جہاں اگلے روز پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ جھڑپوں میں متعدد افراد اور اہلکار زخمی ہوئے۔ احتجاج ختم ہونے کے بعد بشریٰ بی بی، علی امین گنڈاپور اور عمر ایوب مارچ کے شرکا کو چھوڑ کر ہری پور کے راستے مانسہرہ روانہ ہو گئے، جب کہ مظاہرین بھی اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
بعد ازاں اسلام آباد کے مختلف تھانوں میں عمران خان، بشریٰ بی بی، علی امین گنڈاپور اور دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں و کارکنان کے خلاف دہشت گردی اور دیگر دفعات کے تحت متعدد مقدمات درج کیے گئے۔ ان مقدمات کے تحت پولیس نے پی ٹی آئی کے متعدد کارکنوں کو گرفتار کیا۔