سموگ ایک خاموش قاتل
تحریر: وقاص مون
آج کل صبح کے اخباروں کی شہ سرخیاں اور چینلوں پر مارننگ شودیکھیں تو ہر طرف سموگ کے روگ کی صدا ئیں گونج رہی ہیں۔سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہو یا چائے کے ڈھابے ہر جگہ سموگ کا راگ الاپا جارہاہے اوریوں بھی ہر طرف فضاء میں سموگ پھیلی ہے۔ سموگ ہے کیا…..؟ اور اس سے ہمیں کس طرح کے نقصانات ہو سکتے ہیں…..؟ اور ان سے بچنا کیسے ممکن ہے۔سموگ کا مسئلہ سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستان کے مختلف شہروں میں بڑھ جاتا ہے۔ یہ ایک خطرناک ماحولیاتی مسئلہ ہے جس کے اثرات انسانی صحت اور ماحولیاتی توازن پر انتہائی منفی ہوتے ہیں۔ سموگ فوگ اور سموک کا مجموعہ ہے،آسان لفظوں میں کہیں توسموگ دھند، دھوئیں، گرد و غبار اور کیمیائی مادوں کے ملنے سے بنتی ہے جو بعد میں ہماری فضا میں زہریلی صورتحال پیدا کر دیتی ہے۔ یہ ایک جدید عہد کی آلودگی ہے جو تیز رفتار صنعتی ترقی اور بے تحاشہ ٹریفک کی وجہ سے پیدا ہوگئی ہے۔ سموگ فضا ئی آلودگی ہے جوآنکھوں کو شدید متاثر کرتی ہیں اور سانس لینے کے عمل کو دشوار بنا دیتی ہے۔ سموگ بچوں، بزرگوں، اور خاص طور پر سانس کی بیماریوں میں مبتلا افراد کے لئے خطرناک ہے۔سموگ کا سبب بننے والے عناصر میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، اور دیگر زہریلے مادے شامل ہیں، جو گاڑیوں، فیکٹریوں، اور کوئلے کے استعمال سے فضا میں شامل ہوتے ہیں۔کوڑا کرکٹ اور فصلوں کی کٹائی کی باقیات کو جلانا بھی سموگ کے بننے میں اہم کردار ادا کررہاہے۔ سموگ کے باعث گلے،پھیپھڑوں اورسانس کی بیماریاں عام ہوتی جارہی ہیں۔سموگ خاص طور پر بچوں اور بزرگوں کے لئے نقصان دہ ہے کیونکہ ان کی قوت مدافعت کم ہوتی ہے۔ سموگ سے آنکھوں میں جلن، جلدی بیماریاں اور دل کی بیماریوں کا بھی خطرہ بڑھ جاتا ہے یہی نہیں بلکہ سموگ کی وجہ سے فضا میں آکسیجن کی مقدار بھی متاثر ہوتی ہے۔جس سے انسان کی قوت برداشت پر منفی اثر پڑتا ہے۔سموگ کامسئلہ اتنا سادہ نہیں بلکہ یہ ایک ایسا خاموش قاتل ہے جس نے ہمارے ماحول، صحت، اور زندگیوں پر منفی اثرات ڈال دیے ہیں۔ سموگ کے انسانی صحت کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور اقتصادی اثرات کوبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔شہریوں کواپنے کام کاج کیلئے جانے یا دفاتر تک پہنچنے میں شدیدمشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ اسی طرح انسانی صحت کے متاثر ہونے سے افرادی قوت میں کمی سے صنعتی پیداوار میں بھی کمی آ جاتی ہے جس سے ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہے۔ سموگ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے اور کبھی کبھی یہ حادثات کا باعث بھی بنتی ہے،اکثر حادثات جان لیوا بھی ثابت ہوتے ہیں۔سموگ کے باعث تعلیمی ادارے بند کرنے پڑتے ہیں جس سے طالب علموں کا کافی تعلیمی حرج ہوتا اور انکے نتائج کا فی حد تک متاثر ہوتے ہیں۔طالب علموں کے ساتھ ساتھ معلم حضرات کو سلیبس کی تکمیل میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ، سموگ سیاحت کے شعبے کو بھی نقصان پہنچاتی ہے کیونکہ سیاح آلودگی سے متاثرشہروں اور مقامات کا رخ نہیں کرتے۔سموگ انفرادی اور اجتماعی طور پر ہرکسی کیلئے مشکلات پیدا کیے ہوئے ہے۔ سموگ سے بچاؤ کے لئے حکومت اور عوام کو مل کر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو حکومت کو چاہئے کہ فیکٹریوں اور گاڑیوں کی آلودگی کو کم کرنے کے لئے سخت قوانین بنائے۔ شہریوں کوفصلوں کی باقیات اور کوڑا کرکٹ کو جلانے کی بجائے انہیں دوسری صورت میں استعمال کرنے کی ترغیب دلائی جائے جیسے کہ ری سائیکلنگ اور ڈی کمپوزنگ وغیرہ۔صنعت کاروں کو ترغیب دیں کہ وہ صنعتی دھوئیں کو مناسب پراسس کے بعد فضاء میں خارج کریں۔ان سب کے ساتھ ساتھ درختوں کی تعداد بڑھانا بھی سموگ کا ایک مستقل حل فراہم کر سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ لوگوں میں شعور پیدا کرے کہ وہ سموگ کی سنگینی کو سمجھیں اور اپنے روزمرہ کے کاموں میں احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ان سب اقدامات میں شہریوں کا کردار بھی اہم ہے کہ وہ حکومتی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے مکینکلی فٹ گاڑیوں کا استعمال یقینی بنائیں، شجر کاری کی مہمات میں حصہ لیں اور کوڑا کرکٹ کو آگ لگانے جیسے عمل کاحصہ نہ بنیں۔ مزید برآں ماسک کا استعمال اور کم فضائی آلودگی والے اوقات میں باہر نکلنا سموگ کے مضر اثرات سے بچنے میں مدد دے سکتا ہے۔سموگ کے مسئلے پر قابو پانے کے لئے حکومت اور عوام کو مل کر کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم سب اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اس مسئلے کا حل یقینی بنانے کی کوشش کریں تو اس خطرناک صورتحال سے بچا جا سکتا ہے۔