راولپنڈی میں کالج طلبہ کا لاہور کے واقعے پر احتجاج، 250 گرفتار
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا بھی استعمال کیا
راولپنڈی: لاہور کے نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کے معاملے پر راولپنڈی میں احتجاج کے دوران پولیس نے تقریباً 250 طلبہ کو گرفتار کر لیا۔ اس دوران مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
نجی ٹی وی کے مطابق راولپنڈی کے مختلف کالج کیمپسز کے باہر طلبہ نے شدید احتجاج کیا، جس میں کمرشل مارکیٹ، سکستھ روڈ، مورگاہ اور پشاور کیمپس کے باہر مظاہرین نے پتھراؤ اور نعرے بازی کی۔
پشاور روڈ کیمپس پر مشتعل طلبہ نے گیٹ اور شیشے توڑ ڈالے، جبکہ مورگاہ کیمپس کے باہر بھی پتھراؤ کیا گیا۔ احتجاج کے باعث ایوب پارک چوک بلاک ہو گیا، جس سے ٹریفک کی طویل قطاریں لگ گئیں۔
صورتحال کشیدہ ہونے پر پولیس کی بھاری نفری طلب کر لی گئی۔ مورگاہ کے علاقے میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم ہوا۔
سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) آپریشن حافظ کامران اصغر نے بتایا کہ تقریباً 150 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا ہے، تاہم صورتحال اب مکمل طور پر قابو میں ہے۔
ایس ایس پی نے مزید کہا کہ احتجاج کی تحقیقات جاری ہیں اور شہر میں مختلف کالجوں کے باہر سڑکوں پر پولیس کی نفری تعینات کر دی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سڑکوں کو ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے اور احتجاج کے دوران گرفتار کیے گئے افراد میں سے کچھ غیر طلبہ بھی شامل ہیں۔
پولیس ترجمان انسپکٹر سجاد الحسن نے کہا کہ ویڈیوز سے شناخت کے بعد مزید 100 افراد کو گرفتار کیا گیا، جس کے بعد گرفتار شدگان کی تعداد 250 تک پہنچ گئی۔ انہوں نے کہا کہ تحقیقات کے مطابق غیر طلبہ عناصر نے احتجاج کی آڑ میں توڑ پھوڑ کی۔ پولیس ترجمان کے مطابق شہر میں صورتحال اب معمول پر ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے لاہور کے واقعے کو پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بچی زیادتی کا شکار نہیں بلکہ ایک گھٹیا سازش کا نشانہ بنی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سازش ناکام ہونے کے بعد پروپیگنڈے کے ذریعے فتنہ فساد پھیلانے کی کوشش کی گئی۔
مریم نواز نے سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں پھیلانے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا اور کہا کہ اس سازش کے تمام پہلو سامنے آ چکے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے اس بات کی تصدیق کی کہ متاثرہ بچی 2 اکتوبر سے اسپتال میں زیر علاج ہے اور واقعہ زیادتی کا نہیں، بلکہ حادثے کا نتیجہ تھا۔
مریم نواز نے کہا کہ طالبہ کی والدہ نے ان سے رابطہ کر کے اس معاملے کو مزید آگے نہ بڑھانے کی درخواست کی، کیونکہ اس سے ان کے خاندان کی زندگیوں پر اثر پڑ سکتا تھا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ جھوٹے پروپیگنڈے کی وجہ سے معصوم لڑکی اور اس کے خاندان کو شدید نقصان پہنچا ہے، اور سازش کرنے والوں کو سزا دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ مظاہروں کو ہوا دینے والے ایک شخص کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور سازش کے تمام کرداروں کو بے نقاب کیا جائے گا۔
14 اکتوبر کو سوشل میڈیا پر لاہور کے نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کی خبر پھیلنے کے بعد طلبہ میں غم و غصہ پھیل گیا تھا، جس کے نتیجے میں طلبہ نے کالج میں شدید احتجاج کیا اور املاک کو نقصان پہنچایا۔ اس دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جن میں 27 طلبہ زخمی ہوگئے تھے۔
ذرائع کے مطابق پولیس نے طلبہ کی نشاندہی پر کالج کے ایک سکیورٹی گارڈ کو حراست میںلیا تھا تاہم طالبہ کے اہلخانہ کی جانب سے درخواست نہ دینے کے باعث واقعے کی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی۔
بعد ازاں، اے ایس پی شہر بانو نقوی نے متاثرہ طالبہ کے والد اور چچا کے ساتھ ایک ویڈیو بیان جاری کیا، جس میں انہوں نے واضح کیا کہ بچی کے ساتھ زیادتی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا، بلکہ وہ سیڑھیوں سے گر کر زخمی ہوئی تھی۔